. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Wednesday, August 31, 2005

Al Qaeda: a bogey?

All the video and audio cassettes of so-called Al-Qaeda leaders, Osama Bin Laden and his assistants, apart from Western media, were telecast / relayed by Al-Arabiya or Al-Jajeera. Al-Arabiya is official TV of Qatar government and Al-Jazeera is owned by Shaikhs of Qatar who are the government. Qatar is an American base and her shaikhs are puppets of American administration. In present world of advanced electronics and computer, videos of non-exitent activities can be produced, then why can’t experts of CIA / FBI produce videos / audios of Osama and his friends ? This way they are fooling the whole world.

Al Qaeda: a bogey?

To believe Bush, Blair and Sharon almost any carnage in any part of the globe can be traced to Osama bin Laden. The media blitz launched and constantly reinforced in support of this claim is highly effective. Claims of Osama and his Al Qaeda being involved in all such disasters are accepted without question. No proof is considered necessary. Quite forgotten, is the fact that the mother of all lies, nurtured and raised with great care, was the claim that weapons of mass destruction were present in Iraq and that Saddam posed an immediate threat to countries as far away as England and the US. Quite unabashed, the proven liars start perpetuating new lies to further their ends.

Let us assume Osama is really behind all the carnage he is accused of causing. It follows that he must have an effective, lethal network with a strong presence in countries as far away as Spain, Indonesia, the UK, the US, Iraq and Afghanistan. He must have effective deputies overseeing “international operations”, country “godfathers” directing operations in their respective countries, an inexhaustible supply of dedicated planning teams, bomb-makers and daredevil suicide bombers. The network must link all together in such an effective way that the bombings of the type seen in the UK can be carried out with clock-like planning and precision.

Assuming such to be the case, how come the US with its gigantic communication network and with the best surveillance equipment man has invented to date and with topmost sleuths operating it, is still not able to apprehend the mastermind? Again, with hundreds of hapless men interrogated (read tortured) in the most effective ways known to science, in Cuba and elsewhere, how come it has not been possible to produce a single witness before the world to date to testify in support of Osama’s involvement in any of the terrorist acts between September 9, 2001 in the US and July 7, 2005 in the UK inclusive?

To read in full click here

Tuesday, August 30, 2005

۔ آپریشن جبرالٹر JK16

آپریشن جبرالٹر 1965 کے متعلق جموں کشمیر بالخصوص مقبوضہ علاقہ کے لوگوں کے خیالات مختصر طور پر قلمبند کرتا ہوں ۔ یہ آپریشن ذوالفقار علی بھوٹو کی تجویز پر اور جنرل ایوب خان کی ہدائت پر کشمیر سیل نے تیار کیا تھا ۔ یہ سول سروس کے لوگ تھے ۔ خیال رہے کہ ہمارے ملک میں سول سروس کے آفیسران اور آرمی کے جنرل اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے ہیں اور کسی صاحب علم کا مشورہ لینا گوارہ نہیں کرتے ۔

آپریشن جبرالٹر کی بنیاد جن اطلاعات پر رکھی گئی تھی وہ ناقابل اعتماد پیسہ بٹور قسم کے چند لوگوں کی مہیّا کردہ تھیں جو مقبوضہ کشمیر کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر چھپوا کر خبر لگواتے کہ یہ پاکستانی جاسوس مطلوب ہے اور پاکستان آ کر وہ اخبار کشمیر سیل کے آفیسران کو دکھاتے اور یہ کہہ کر بھاری رقوم وصول کرتے کہ وہ پاکستان کی خدمت اور جموں کشمیر کے پاکستان کے الحاق کے لئے جہاد کر رہے ہیں ۔ کچھ ماہ بعد وہ اسی طرح پاکستان کے کسی سستے اخبار میں اپنی تصویر کے ساتھ خبر لگواتے کہ یہ بھارتی جاسوس مطلوب ہے اور جا کر بھارتی حکومت سے انعام وصول کرتے ۔ اس کھیل میں مقبول بٹ پہلے پاکستان میں پکڑا گیا لیکن بھارتی ہوائی جہاز کے اغواء کے ڈرامہ کے بعد نامعلوم کس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے اسے مجاہد بنا کر رہا کروا لیا مگر بعد میں وہ لندن میں گرفتار ہو کر بھارت پہنچا اور اسے سزا ہوئی ۔ اس کے پیروکار اسے شہید کہتے ہیں جنہوں نے پاکستان میں جے کے ایل ایف بنائی ۔ مقبوضہ کشمیر والی جے کے ایل ایف کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

خیال رہے کہ 1965 تک کشمیر کے لوگ بآسانی جنگ بندی لائین عبور کر لیتے تھے ۔ میں 1957 میں پلندری میں گرمیوں کی چھٹیاں گزار رہا تھا کہ دو جوان سرینگر میں دکھائی جارہی فلم کے متعلق بحث کر رہے تھے میرے اعتراض پر انہوں نے کہا کہ فلم دیکھ کر آئے ہیں ۔ میں نے یقین نہ کیا تو دو ہفتے بعد وہ نئی فلم دیکھنے گئے اور واپس آ کر سرینگر کے سینما کے ٹکٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے ۔ میں نے اچھی طرح پرکھا ٹکٹ اصلی تھے سرینگر کے سینما کے اور ایک دن پہلے کے شو کے تھے ۔

خیر متذکرہ بالا جعلی جاسوسوں نے کشمیر سیل کے آفیسران کو باور کرایا کہ جموں کشمیر کے لوگ بالکل تیار ہیں ۔ آزاد کشمیر سے مجاہدین کے جنگ بندی لائین عبور کرتے ہی جموں کشمیر کے تمام مسلمان جہاد کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ حقیقت یہ تھی کہ وہاں کے لوگوں کو بالکل کچھ خبر نہ تھی ۔ جب پاکستان کی حکومت کی مدد سے مجاہدین پہنچے تو وہاں کے مسلمانوں نے سمجھا کہ نجانے پھر نومبر 1947 کی طرح ان کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے چنانچہ انہیں پناہ نہ دی نہ ان کا ساتھ دیا ۔ مقبوضہ کشمیر کےلوگوں کو بات سمجھتے بہت دن لگے جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا ۔

جنرل اختر ملک اور جنرل یحی کے درمیان کمان کی تبدیلی کے متعلق جنگ کے دوران چھمب جوڑیان میں موجود چند میجر اور لیفٹیننٹ کرنل کی سطح کے آفیسران کا کہنا تھا کہ جنرل اختر ملک کی کمان کے تحت پاکستان کے فوجی توی کے کنارے پہنچ گئے تھے اور توی عبور کر کے اکھنور پر قبضہ کرنا چاہتے تھے مگر انہیں کمان کی طرف سے اکھنور سے پہلے توی کے کنارے رک جانے کا حکم تھا اگر پیش قدمی جاری رکھی جاتی تو بھارت کو دفاع کا موقع نہ ملتا اور جموں کشمیر پاکستان میں شامل ہو گیا ہوتا ۔ کمان ہیڈ کوارٹر میں موجود ایک آفیسر کا کہنا تھا کہ جنرل یحی کمان ہیڈ کوارٹر پہنچ کر دو دن جنرل اختر ملک کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آپریشن اس کے حوالے کرے ۔ اور ان دنوں میں محاز پر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوئی ۔
اللہ جانے کہ کون غلطی پر تھا ۔ ہمارے ملک میں کوئی اپنی غلطی نہیں مانتا ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

Saturday, August 27, 2005

ميں مسکرایا پھر افسوس بھی ہوا

بعض اوقات انسان کسی چیز کو ثابت کرنے کی کوشش میں موضوع کو اتنا پھیلا دیتا ہے کہ قاری پر اس کا الٹا اثر ہوتا ہے ۔ دانیال صاحب نے ایک لمبی کہانی بنا دی ہے جس میں سب کو لپیٹ دیا ہے ۔ سائنس کی کتابوں میں انہیں اسلامیات مل گئی ہے ۔ یہ طویل معاملہ ہے اس لئے انشاء اللہ پھر کبھی ۔ سائنس میں قرآن کیوں ہے دیکھنے کے لئے یہا ں کلک کیجئے ۔

میں ایک سے زائد بار لکھ چکا ہوں کہ میں نے خود سیکھنے اور اپنا علم اور تجربہ دوسروں تک پہنچانے کے لئے روزنامچہ لکھنا شروع کیا تھا ۔ اس سلسہ میں بعض اوقات بحث سے علم میں اضافہ ہوتا ہے لیکن کبھی ایسے لگتا ہے جیسے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ میں ایسی صورت میں عام طور پر اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہوں ۔ آج بھی میں نے یہی سوچا تھا لیکن چونکہ سب کچھ مشکوک بن گیا ہے اس لئے کچھ لکھنا لازم ہو گیا ہے ۔

انلائیٹنڈ ماڈریشن کے پرستار سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے دنیا کو انلائیٹن کیا اور انسانوں کو ماڈریشن کی ہدائت کی ۔ یہ پیغام چودہ سو سال پہلے اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت محمد صلّ اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے ذریعہ تمام انسانوں تک پہنچا دیا ۔ اب پرویز مشرف اور اس کے پیروکار نمعلوم کونسی بانسری بجا رہے ہیں ۔ اسلام صرف اسلام ہے اس کے ساتھ کسی لاحقے یا سابقے کی ضرورت نہیں ۔ جب اللہ نے اسلام کو مکمل دین قرار دے دیا تو اس کو پرانا یا دقیانوسی کہنے والے اور ترامیم سوچنے والے کیا اپنے آپ کو اللہ عزیزالحکیم کے برابر یا زیادہ عقلمند سمجھتے ہیں ۔؟ نعوذ باللہ من ذالک

ٹھیک ہے کہ کلمہ پڑھنے سے انسان مسلمان ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی سوچیں کہ کلمہ میں پڑھتے کیا ہیں ۔ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمد اس کے پیغام لانے والے ہیں ۔ یعنی صرف اللہ کو معبود ماننا اور یہ کہ رسول اکرم نے جو کچھ کہا وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ معشوق کی خوشنودی کے لئے عاشق کیا کچھ نہیں کرتا ۔ معبود کا درجہ معشوق سے بہت بلند ہے ۔ زندگی کا ہر عمل معبود کی خواہش کے مطابق کرنا پڑتا ہے ۔ معشوق کے لئے عاشق تخت چھوڑ دیتا ہے ۔ فقیر بنتا ہے ۔مہینوال بنتا ہے ۔ نہریں کھودتا ہے ۔ مجنون ہو جاتا ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی تو اایسا نہیں چاہتا ۔ وہ تو صرف ہماری بہتری کے لئے ہمیں ایک اچھی اور باعزت زندگی گذارنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ ہم لوگ تو قرآن شریف کو سمجھنے کی کوشش کئے بغیر ترامیم بتانے لگ گئے ہیں کیا سائنس یا حساب کے ساتھ کبھی ہم نے ایسا کیا ہے ؟

پرویز مشرف صاحب کے حکومت پر قبضہ کرنے سے پہلے تقریبا چار ہزار مدرسے رجسٹرڈ تھے ۔ اس کے بعد نیا قانون بننے سے پہلے تک مزید کوئی مدرسہ رجسٹر نہیں ہوا تھا ۔ جو مدرسے رجسٹر نہیں ہوئے تھے وہ اس قابل نہیں تھے ۔ اس سلسہ میں انشاء اللہ پھر کبھی لکھوں گا ۔

مہاجر کا لاحقہ از خود نہیں بلکہ مجبور ہوکر چھوڑا گیا تھا ۔ لیکن یہ لاحقہ لگانے کا مقصد کیا تھا سوائے اس کے کہ وہ لوگ اپنے آپ کو مقامی یعنی پاکستانی نہیں سمجھتے تھے ۔ ذرا ماضی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ مہاجر قومی موومنٹ مارچ 1984 میں بطور سٹوڈنٹ آرگنائزیشن معرض وجود میں آئی ۔ اس وقت پاکستان بنے 37 سال ہو چکے تھے ۔ اس وقت کے یونیورسٹی کے طلباء اور طالبات پاکستان بننے کے دس پندرہ سال بعد پاکستان میں پیدا ہونے کے باعث پیدائشی پاکستانی تھے ۔

دو سال بعد اگست میں ان کا پہلا سیاسی جلسہ نشتر پارک میں ہوا جس میں بہت سے جوان پستولوں اور بندوقوں سے نہ صرف لیس تھے بلکہ خوشی کے اظہار کے لئے انہوں نے خوب ہوائی فائرنگ کی ۔ اس قسم کی ہوائی فائرنگ پہلے صرف سرحد کے قبائلیوں کا امتیاز تھی ۔ اسلحہ کی اس نمائش کا کیا مقصد تھا ؟

محظ اتفاق ہے کہ جنوری 1989 کے آخری دنوں میں این ای ڈی انجئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کے ساتھ میری میٹنگ تھی ۔ میں وہاں پہنچا تو ایسا سماں تھا جیسے ایک ملک پر کسی دوسرے ملک کا قبضہ ہو گیا ہو ۔ میرے ڈرائیور نے گاڑی روکی مگر میں نے اسے چلنے کا کہا ۔ لڑکے آ ئے اور گاڑی کو گھیر لیا ۔ ان میں سے ایک نے جھک کر گاڑی کی نمبر پلیٹ دیکھی اور سب کو ہٹنے کا اشارہ کیا ۔ واقعہ بہت لمبا ہے ۔مختصر یہ کہ میں نے ایسی غنڈہ گردی پہلے کبھی یونیورسٹی کے باہر بھی نہ دیکھی تھی ۔ یونیورسٹی پر ایم کیو ایم کا سٹوڈنٹ ونگ قبضہ کر چکا تھا ۔

شومئی قسمت فروری کے تیسرے ہفتہ میں انجنئرنگ یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحبان کے ساتھ میری میٹنگ تھی ۔ میں جب کراچی یونیورسٹی پہنچا تو وہاں حالات کچھ زیادہ ہی خراب تھے ۔ وائس چانسلر صاحب دفتر میں موجود نہیں تھے کسی متعلقہ شخص نے بتایا کہ میٹنگ کے متعلق انہوں نے انجنئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کو ٹیلی فون کیا تھا ۔ قصہ کوتاہ اس دن ایم کیو ایم کی کے سٹوڈنٹ ونگ نے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کے دفتر کو آگ لگا دی تھی ۔

دانیال صاحب اخباری رپورٹوں کو نہیں مانتے ۔ کمال یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے ڈان کی تیس ہزار کاپیاں زبردستی اٹھا کر جلائیں ۔ جنگ اخبار کے دفتر کو آگ لگائی ۔ نوائے وقت والوں کو دھمکیاں دیں ۔ صحافیوں اور ہاکروں کی پٹائی کی ۔ باقی اخباروں کا مجھے علم نہیں کیا ہوا ۔ کیا سب اخبار اور ان کے رپوٹر صرف ایم کیو ایم کے ہی دشمن تھے ؟ آخر کیوں ؟

دانیال صاحب جموں کشمیر میں بھارتی درندگی کے خلاف حق خود ارادی کی تحریک چلانے والوں کو بھی دہشت گرد کہتے ہیں ۔ اگر کسی کے باپ ۔ بھائی یا جوان بیٹے کو اذیّتیں دے کر مار دیا جائے اور کچھ دن یا کچھ ہفتوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملے ۔ اگر کسی کی ماں ۔ بہن ۔ بیوی یا بیٹی کی آبروریزی کی جائے ۔ اگر کسی کا گھر ۔ کاروبار یا کھیت جلا د ئیے جائیں ۔ تو کیا وہ شخص ظلم کرنے والے درندہ صفت لوگوں سے کہے گا ۔ آؤ ہم اک دوجے کے ہو جائیں اور اکٹھے بیٹھ کے آئس کریم کھائیں ؟

Friday, August 26, 2005

۔ ہماری روانگی اور پاکستان آمد JK15

کرنل عبدامجید کے بھائی جموں میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ میجسٹریٹ تھے نومبر 1947 کے وسط میں وہ آئے اور بتایا کہ شیخ محمد عبداللہ کو وزیراعظم بنا دیا گیا ہے اور امید ہے کہ امن ہو جائے گا ۔ لیکن جموں کے تمام مسلمانوں کے مکان لوٹے جاچکے ہیں اور تمام علاقہ ویران پڑا ہے ۔ واپس جا کر انہوں نے کچھ دالیں چاول اور آٹا وغیرہ بھی بھجوا دیا ۔ تین چار ہفتہ بعد ایک جیپ آئی اور ہمارے خاندان کے چھ بچوں ۔ میں میری دو بہنیں ۔ دو کزنز اور پھوپھی ۔ کو جموں کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کے گھر لے گئی ۔ وہاں قیام کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ 6 نومبر کو مسلمانوں کے قافلے کے قتل عام کے بعد خون سے بھری ہوئی بسیں چھاؤنی کے قریب والی نہر میں دھوئی گئی تھیں ۔ اسی وجہ سے ہم نے نہر میں خون اور خون کے لوتھڑے دیکھے تھے ۔ مسلمانوں کے قتل کا منصوبہ انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا اور ان کے علم میں وقوعہ کے بعد آیا ۔ وہاں کچھ دن قیام کے بعد ہمیں دوسرے لاوارث اور زخمی عورتوں اور بچوں کے ساتھ مدراسی فوجیوں کی حفاظت میں 18 دسمبر 1947 کو سیالکوٹ پاکستان بھیج دیا گیا ۔

میں لکھ چکا ہوں کہ میرے والدین فلسطین میں تھے اور ہم دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس تھے ۔ یہ بھیڑ بھاڑ سے گبھرانے والے لوگ تھے اس لئے انہوں نے پہلے دو دن کے قافلوں میں روانہ ہونے کی کوشش نہیں کی ۔ جو عزیز و اقارب پہلے دو دن کے قافلوں میں روانہ ہوئے ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچا ۔

ہمارے بغیر سات ہفتوں میں ہمارے بزرگوں کی جو ذہنی کیفیت ہوئی اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جب ہماری بس سیالکوٹ چھاؤنی آ کر کھڑی ہوئی تو میری بہنوں اور اپنے بچوں کے نام لے کر میری چچی میری بہن سے پوچھتی ہیں بیٹی تم نے ان کو تو نہیں دیکھا ۔ میری بہن نے کہا چچی جان میں ہی ہوں آپ کی بھتیجی اور باقی سب بھی میرے ساتھ ہیں لیکن چچی نے پھر وہی سوال دہرایا ۔ ہم جلدی بس سے اتر کر چچی اور پھوپھی سے لپٹ گئے ۔ پہلے تو وہ دونوں حیران ہوکر بولیں آپ لوگ کون ہیں ؟ پھر ایک ایک کا سر پکڑ کر کچھ دیر چہرے دیکھنے کے بعد ان کی آنکھوں سے آبشاریں پھوٹ پڑیں ۔

پاکستان پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے دادا کا جوان بھتیجا جموں میں گھر کی چھت پر بھارتی فوجی کی گولی سے شہید ہوا ۔ باقی عزیز و اقارب 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے اور آج تک ان کی کوئی خبر نہیں ۔ جب ہمارے بزرگ ابھی پولیس لائینز جموں میں تھے تو 7 نومبر کو فجر کے وقت چند مسلمان جو 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے وہ پولیس لائینز پہنچے اور قتل عام کا حال بتایا ۔ یہ خبر جلد ہی سب تک پہنچ گئی اور ہزاروں لوگ جو بسوں میں سوار ہو چکے تھے نیچے اتر آئے ۔ وہاں مسلم کانفرنس کے ایک لیڈر کیپٹن ریٹائرڈ نصیرالدین موجود تھے انہوں نے وہاں کھڑے سرکاری اہلکاروں کو مخاطب کر کے بلند آواز میں کہا پولیس لائینز کی چھت پر مشین گنز فٹ ہیں اور آپ کے فوجی بھی مستعد کھڑے ہیں انہیں حکم دیں کہ فائر کھول دیں اور ہم سب کو یہیں پر ہلاک کر دیں ہمیں بسوں میں بٹھا کے جنگلوں میں لے جا کر قتل کرنے سے بہتر ہے ہمیں یہیں قتل کر دیں اس طرح آپ کو زحمت بھی نہیں ہو گی اور آپ کا پٹرول بھی بچےگا ۔

پھر 7 اور 8 نومبر کو کوئی قافلہ نہ گیا ۔ اسی دوران شیخ عبداللہ جو کانگرس نما نیشنل کانفرنس کا صدر تھا کو وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ اس نے نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کو شہروں سے ہٹا کر ان کی جگہ مدراسی فوجیوں کو لگایا جو مسلمان کے قتل کو ہم وطن کا قتل سمجھتے تھے ۔ میرے دادا ۔ دادی ۔ پھوپھی اور خاندان کے باقی بچے ہوئے تین لوگ 9 نومبر کے قافلہ میں سیالکوٹ چھاؤنی کے پاس پاکستان کی سرحد تک پہنچے ۔ بسوں سے اتر کر پیدل سرحد پار کی اور ضروری کاروائی کے بعد وہ وہاں سے سیالکوٹ شہر چلے گئے ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

Thursday, August 25, 2005

کراچی کے سیاسی روز و شب

میں دانیال صاحب کا مشکور ہوں کہ مجھے دماغ پر زور دینے پر راغب کرتے ہیں جو میری دماغی صحت کے لئے ٹانک ہے ۔ ان کے استفسار کا مندرجہ ذیل جواب لکھا ہے ۔ صلاح عام کے لئے یہاں نقل کر رہا ہوں ۔

میں ایک عام آدمی ہوں نہ وڈیرہ ہوں نہ بیوروکریٹ ۔ اللہ سبحانہ و تعالی کے فضل و کرم سے میں غیرمحسوس طور پر ہر جگہ چلا جاتا ہوں ۔ مجھ پر اللہ کا ایک اور کرم بھی ہے کہ میں جہاں یا جن میں بھی چلا جاؤں عام طور پر لوگ مجھے اپنے میں سے ہی سمجھتے ہیں ۔ جہاں جانا ہو اس کے مطابق لباس پہنتا ہوں ۔ میں نیوڈز کلب کبھی نہیں گیا (مذاق)۔اسی لئے مجھے ذاتی طور پر معلومات حاصل کرنے میں آسانی رہتی ہے ۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے یہ میرے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر ہے ۔ کسی کو منانے کے لئے نہیں لکھا ۔ کھلے دماغ سے تاریخ کا مطالع کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ جب مہاجر مقامی بن چکے تھے تو تفرقہ ڈالنے کے لئے مہاجر قومی موومنٹ کس نے بنائی ۔ پیپلز پارٹی نے اس کے ساتھ تعاون کیوں کیا تھا جو بعد میں ٹوٹ گیا اور موجودہ حکومت کیوں اسے اوپر لائی ہے ۔ پھر یہ غلط فہمی دور ہو جائے گی کہ عوام ایم کیو ایم کی بھرپور حمائت کرتے ہیں ۔

میری ایک خبر کی دانیال صاحب تائید کر چکے ہیں کہ ایم کیو ایم نے بے دریغ روپیہ خرچ کیا ہے ۔ ایک سوال تو دانیال صاحب نے خود ہی پوچھ لیا کہ یہ روپیہ کہاں سے آیا ؟ مزید دو سوال ہیں ۔

پہلا ۔ اگر ایم کیو ایم اتنی ہی ہر دل عزیز ہے جتنا دعوی کرتی ہے تو بے دریغ روپیہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
دوسرا ۔ جو روپیہ خرچ کیا گیا ہے کیا ایم کیو ایم اس سے کئی گنا مال حکومت میں آکر نہیں بنائے گی ؟

کراچی یونیورسٹی میں غنڈہ گردی کا آپ نے حوالہ دیا کیا اسلامی جمیت طلباء کے حوالہ سے ۔ میں اتفاق سے ایک دفعہ ایسے وقت این ای ڈی انجنئرنگ یونیورسٹی گیا تھا کہ وہاں فساد برپا تھا ۔ وائس چانسلر صاحب اپنے دفتر کی بجائے کہیں اور تھے ۔ کوئی جاننے والا مل نہیں رہا تھا کہ مجھے ان تک پہنچائے ۔ میں نے وقت کا صحیح استعمال کرنے کے لئے معلومات اکٹھا کرنا شروع کر دیا ۔ ٹکراؤ مہاجر اور جمعیت میں تھا ۔ جو میں نے دیکھا اس کے مطابق جمعیت بے قصور تو نہیں تھی مگر زیادتی مہاجر گروپ کر رہا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں مہاجروں کی اولاد تھے ۔ بعد میں یہی میلہ کراچی یونیورسٹی میں بھی دیکھنے کو ملا ۔

میں پندرہ سال پہلے تک یہی سمجھتا تھا کہ اسلامی جمیت طلباء جماعت اسلامی کی شاخ ہے لیکن تحقیق نے میرا موقف بدل دیا ۔ جمعیت جماعت اسلامی کی حمائت یافتہ ہے اس کی شاخ نہیں ۔ موٹی سی مثال ہے ۔ مخدوم جاوید ہاشمی اور احسن اقبال دونوں اپنے اپنے وقت میں اسلامی جمعیت طلباء کے ناظم تھے اور تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مسلم لیگ میں تھے ۔

دانیل صاحب ناراض تو ہوں گے مگر خود ہی مجھے سچ کہنے پر مجبور کیا ہے ۔ دس سال پہلے سے لے کر تین سال پہلے تک ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کے حمائت یافتہ یوتھ فورم آپس میں گھی اور شکر تھے ۔ مطلب ختم ہو گیا تو جماعتیئے ئنڈے بن گئے ۔ اسی کو ہمارے ملک میں سیاست کہا جاتا ہے ۔ اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے آمین
۔

کسی کو گالی دینے سے کیا فائدہ

شعیب صفدر صاحب نے کراچی کے الیکشن کے متعلق جو لکھ دیا ہے وہ زیادہ مستند ہو گا کیونکہ وہ کراچی میں رہتے ہیں ۔اس لئے میں اس سلسلہ میں لکھنا نہیں چاہتا ۔ ہمارے ملک میں جو سیاست ہے وہ سب کچھ ہو سکتی ہے مگر سیاست کسی طور نہیں ہے اور نہ ہی وہ عوام کے کسی اجتمائی فائدے کے لئے ہے ۔

یہ عمل میری سمجھ میں آج تک نہیں آیا کہ ان جماعتوں کو لوگ کسی خوشی میں ووٹ دیتے ہیں جو الیکشن مہم پر بے دریغ روپیہ خرچ کرتے ہیں ۔ لازمی بات ہے کہ الیکش جیتنے کے بعد وہ اپنے خرچ کئے ہوئے روپیہ سے دس گنا نہیں تو پانچ گنا ضرور وصول کریں گے اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے کرپشن جس کے نتیجہ میں مہنگائی بڑھے گی ساتھ ٹیکسوں کی بھرمار بھی اور غریب پسیں گے ۔ اپنے آپ کو حق پرست کہنے والوں نے بھی الیکشن پر جس طرح روپیہ بہایا ہے پانی بہاتے ہوئے بھی لوگ جھجھکتے ہیں ۔ شائد اسی لئے وہ اپنے آپ کو خدا پرست نہیں کہتے حق پرست کہتے ہیں ۔

دانیال صاحب کا ایم کیو ایم کے ساتھ والہانہ اور جذباتی تعلق محسوس ہوتا ہے ۔ اس بار انہوں نے رعائت کر تے ہوئے جماعت اسلامی والوں کو انتہاء پسند لکھا ہے ۔ اگر کہا جائے کہ ایم کیو ایم سے زیادہ انتہاء پسند اور کوئی جماعت نہیں تو اس کو ہم کیسے غلط ثابت کرسکتے ہیں ؟ اور کیا انتہاء پسند صرف وہی ہوتے ہیں جن کی داڑھی ہو ؟ کسی کو غنڈہ کہنے سے پہلے ہر شخص کو سوچ لینا چاہیئے کہ اسے بھی غنڈہ کہا جا سکتا ہے ۔ سیانے کہتے تھے کہ کیچڑ میں پتھر نہیں مارنا چاہیئے چھینٹے اپنے اوپر پڑتے ہیں لیکن اب لوگ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں پر پتھر پھینکتے ہیں ۔ شائد انہوں نے گھر کے گرد کوئی نہ نظر آنے والا حصار بنایا ہوا ہوتا ہے ۔

آج سے ترپن برس پہلے جب میں مسلم ہائی سکول راولپنڈی میں پڑھتا تھا سکول سے باہر ہماری جماعت کے دو لڑکے لڑ پڑے ۔ اس زمانے میں سکول کے اندر لڑنے کی کسی کو جراءت نہیں ہوتی تھی اور باہر بھی کبھی کبھار ۔ آجکل تو ہماری قوم بالکل آزاد ہے جو چاہے جب چاہے جہاں چاہے کر لیتے ہیں ۔ بہر کیف اگلے دن ہمارے ایک استاد کے سامنے پیش ہوئے ۔ لڑنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک نے گالی دی اس پر دوسرے نے اس کی پٹائی کی ۔ استاد نے کہا کہ اگر کچھ لڑکے جا رہے ہوں اور کوئی گالی دے تو اس کو لگے گی جو پیچھے مڑ کر دیکھے گا یعنی جو رد عمل دکھائے ۔ ایک لڑکا بولا اگر کوئی بھی رد عمل نہ دکھائے پھر کیا ہو گا ؟ استاد نے کہا پھر گالی اسے لگے گی جس نے گالی دی تھی ۔ یہ بات مجھے اس دن تو سمجھ نہ آئی تھی مگر عملی زندگی میں داخل ہوتے ہی سمجھ آ گئی کہ کیسی زبردست فلاسفی ہے اس میں ۔

پچاس سال قبل جب میں گارڈن کالج میں پڑھتا تھا تو میرا پہلا تعارف جماعت اسلامی سے اس طرح ہوا کہ پروگریسو سٹوڈنٹس آرگینائزیشن والے کہتے تھے جماعت اسلامی کے غنڈے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن والے کہتے تھے جماعت اسلامی کے غنڈے ۔ اب ایم کیو ایم والے کہتے ہیں جماعت اسلامی کے غنڈے ۔ یہ جو لوگ جماعت اسلامی کے لوگوں کو غنڈہ کہتے تھے وہ دین اسلام سے بیزار تھے یا ہیں ۔ اس سے تاءثر ابھرتا ہے کہ جماعت اسلامی کا قصور اس کا دین ہے ۔ غیر مسلم یا کفار بھی مسلمانوں کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں اور وہ ترقی یافتہ اور امیر بھی ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے لوگوں نے ترقی کا راز سمجھ کر جماعت اسلامی کے لوگوں کو غنڈہ کہنا شروع کر دیا ہے ۔

Wednesday, August 24, 2005

وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے

انا للہ و انا الیہ راجعون
بچوں جوانوں بوڑھوں سب کو ہنسانے والے جمشید انصاری انتقال کر گئے

Tuesday, August 23, 2005

بیٹھو گے یا لیٹو گے؟

شاہ زیب جیلانی ۔ ایڈیٹر بی بی سی اردو ریڈیو، کراچی

کہنے کو تو یہ انتخابی عمل غیرجماعتی بنیادوں پر ہے لیکن حقیقت میں اصل مقابلہ متحدہ مجلسِ عمل کی جماعتِ اسلامی اور ایم کیو ایم کے درمیان ہے۔ فریقین شہر کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم کی انتخابی مہم ٹارگیٹڈ ہے جس کا نشانہ ہے: سابق سٹی ناظم نعمت اللہ کی ذات۔
شہر میں جس طرف نظر پڑے درجنوں بڑے بڑے بورڈ نظر آتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ نظروں کو چُبھتی ہوئی ایڈورٹائزنگ کی اس بھر مار میں سیاسی پارٹیاں بھی پیش پیش ہیں جس میں ایم کیو ایم دوسروں سے کہیں آگے ہے۔
آجکل شاز و نادر ہی شہر کی کوئی ایسی بڑی سڑک ہے جہاں ایم کیو ایم کے ’الطاف بھائی‘ کی تصویراور اس کے پرچم اشتہاری بورڈوں پر آویزاں نہ ہوں یا نعمت اللہ کے خلاف ایم کیو ایم کی مہم کے نعرے درج نہ ہوں۔ پبلسٹی کے حساب سے، شہر پر بظاہر ایم کیو ایم کا ہی قبضہ نظر آتا ہے۔
حکومت مُخالف امیدوار پہلے ہی شکایات کرتے رہے ہیں کہ اُنہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ شہر کی ایک بڑی پارٹی کے حوالے سے عام چرچا یہ سُننے کو مِل رہی ہے کہ اُس کے حمایت یافتہ لوگ اپنے مدِمقابل کھڑے ہونے والے اُمیدواروں کو دو ہی راستے پیش کر رہے ہیں: ’بیٹھو گے یا لیٹو گے؟‘
اسی ہفتے لیاری میں سُنی تحریک کے ایک امیدوار کے دن دھاڑے قتل اور بعد میں کراچی پولیس کی جانب سے تخریب کاری کا پلان بنانے والے جماعتِ اسلامی کے مبینہ کارکنوں کی گرفتاری نے الیکشن سے پہلے کی فضا اور کشیدہ کر دی ہے۔

Monday, August 22, 2005

۔ مسللمانوں کا قتل عام اور خواتین کا اغواء JK14

ہم دو دن رات روتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا ۔ آخر تیسرے دن خاتون خانہ نے خالی چاول ابالے ۔ ہم سب بچوں کو پیار کیا اور تھوڑے تھوڑے چاول کھانے کو دیئے ۔

تین یا چار دن بعد ایک ادھیڑ عمر اور ایک جوان خاتون اور ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی آئے ۔ جوان خاتون کی گردن میں پچھلی طرف ایک انچ چوڑا اور کافی گہرا زخم تھا جس میں پیپ پڑ چکی تھی ۔ یہ لوگ جموں میں ہمارے محلہ دار تھے ۔ لڑکی میرے ہم جماعت ممتاز کی بڑی بہن تھی جوان خاتون اس کی بھابھی اور بڑی خاتون اس کی والدہ تھیں ۔ ان کا پورا خاندان 6 نومبر والے قافلہ میں تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ مردوں بڑی عمر کی عورتوں اور بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور جوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔ وہ بس سے نکل بھاگے ۔ ممتاز کی بھابھی اور دو نوں بہنوں نے اغواء سے بچنے کے لئے نہر میں چھلانگیں لگائیں ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے ایک کافر نے نیزے سے وار کیا جو بھابھی کی گردن میں لگا ۔ خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ گر کر بیہوش ہوگئي ۔ پھر گولیاں چلنی شروع ہو گئیں ۔ ممتاز کی والدہ گولیوں سے بچنے کے لئے زمین پر لیٹ گئی اس کے اوپر چار پانچ عورتوں مردوں کی لاشیں گریں اس کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں مگر وہ اسی طرح پڑی رہی ۔ اس نے دیکھا کہ ایک شیرخوار بچے کو ماں سے چھین کر ہوا میں اچھالا اور نیزے سے ہلاک کر دیا ۔

شور شرابا ختم ہونے پر اسے خیال ہوا کہ بلوائی چلے گئے ۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگی ۔ تینوں بیٹوں اور باقی رشتہ داروں کی لاشوں پر اور اپنی بے چارگی پر آنسو بہاتی رہی ۔ اچانک بہو اور بیٹیوں کا خیال آیا اور اٹھ کر دیوانہ وار نہر کی طرف بھاگی ۔ بہو نہر کے کنارے پڑی ملی اس کے منہ میں نہر کا پانی ڈالا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بیٹی آ کر چیختی چلّاتی ماں اور بھابھی کے ساتھ لپٹ گئی ۔ اس نے بتایا کہ چھوٹی بہن ڈوب گئی ۔ وہ نہر کی تہہ میں تیرتی ہوئی دور نکل گئی تھی اور واپس سب کو ڈھونڈنے آئی تھی ۔

ماں بیٹی نے بہو و بھابھی کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اس کے بازو اپنی گردنوں کے گرد رکھ کر چل پڑے ۔ ایک نمعلوم منزل کی طرف ۔ رات ہو گئی تو جنگلی جانوروں سے بے نیاز وہیں پڑ رہیں ۔ صبح ہوئی تو پھر چل پڑیں ۔ چند گھینٹے بعد دور ایک کچا مکان نظر آیا ۔ بہو اور بیٹی کو جھاڑیوں میں چھپا کر بڑی خاتون مکان تک گئی ۔ کھانے کو کچھ نہ لائی ۔ جیب خالی تھی اور بھیک مانگنے کی جراءت نہ ہوئی ۔ جموں چھاؤنی کا راستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی تک سارا سفر مخالف سمت میں طے کیا تھا ۔ چاروناچار الٹے پاؤں سفر شروع کیا ۔ بھوک پیاس نے ستایا تو جھاڑیوں کے سبز پتے توڑ کے کھا لئے اور ایک گڑھے میں بارش کا پانی جمع تھا جس میں کیڑے پڑ چکے تھے وہ پی لیا ۔ چلتے چلتے پاؤں سوج گئے ۔ مزید ڈھیڑ دن کی مسافت کے بعد وہاں پہنچے جہاں سے وہ چلی تھیں ۔ حد نظر تک لاشیں بکھری پڑی تھیں اور ان سے بدبو پھیل رہی تھی ۔ نہر سے پانی پیا تو کچھ افاقہ ہوا اور آگے چل پڑے ۔ قریب ہی چار کھمبے تھے تقریبا ایک میٹر سکویئر کے کونوں پر ۔ ایک عورت کی برہنہ لاش کو اس طرح باندھا ہوا تھا کہ ایک بازو ایک کھمبے سے دوسرا بازو دوسرے کھمبے سے ایک ٹانگ تیسرے کھمبے سے اور دوسری ٹانگ چوتھے کھمبے سے ۔ اس کی گردن سے ایک کاغذ لٹکایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا یہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہا ہے ۔

چار ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947 کو ختم ہوئے بھارتی فوج ۔ مہاراشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دل کے مسلحہ لوگوں نے صوبہ جموں میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا ۔ سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لیں اور لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا ۔ تیس ہزار سے زائد مسلمان صرف نومبر کے پہلے چھ دنوں میں ہلاک کئے گئے ۔ اغواء ہونے والی لڑکیوں میں مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس اور نائب صدر چوہدری حمید اللہ کی بیٹیاں بھی شامل تھی ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

Sunday, August 21, 2005

تیاری

جوانی ہی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اٹھتے ہیں جو جانا دور ہوتا ہے

Thursday, August 18, 2005

نہرمیں خون وہ بولاسب مرگئےاور بےہوش ہوگیا JK13

کھانا پکانے کے لئے میں اپنے کزن کے ساتھ باہر سے سوکھی تھور جسے انگریزی میں کیکٹس کہتے ہیں توڑ کے لاتا تھا جس سے میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی ہوگئیں تھیں ۔ جب تک میں واپس نہ آتا میری بہنیں میری خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتی رہتیں ۔ ہمارے پاس کھانے کا سامان تھوڑا تھا اور مزید لانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے ہم تھوڑا ہی کھاتے ۔ جب زیتون کا تیل ختم ہو گیا تو ابلے پھیکے چاولوں پر بغیر پیاز لہسن نمک مرچ مصالحہ صرف ابلی ہوئی دال ڈال کر کھا لیتے ۔

ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹا میں 10 سال کا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947 بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون اور خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور الٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کچھ دیر بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ خاتون خانہ نے سب خواتین اور لڑکیوں کو اندر بھیج دیا پھر ایک ڈنڈا انہوں نے اٹھایا اور ہم نے ان کی تقلید کی ۔ دوبارہ زور سے دستک ہوئی ۔ خاتون خانہ نے مجھے کنڈی کھولنے کا اشارہ کیا ۔ جونہی میں نے کنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا اور سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ سب ششدر رہ گئے ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا بھائی جان کیا ہوا ؟ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے عزیز و اقارب سب مار دیئے گئے ہیں سو سب زار و قطار رونے لگ گئے ۔ پھر اسے اٹھا کر اندر لے گئے ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔

ہوش میں آنے پر اس نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل عام کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔

نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمانوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ ادھر ادھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ الٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا ۔ مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ بسیں خون سے لت پت تھیں ان کے اندر بھی لاشیں تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی خون آلود لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا
۔باقی انشاءاللہ آئیندہ

Wednesday, August 17, 2005

سندھ حکومت نمبر لے گئی

جرنیلوں کو تو ان کے بڑے جرنیل صاحب نے مختلف شہروں کی سویلین رجسٹریشن پلیٹ والی تین تین چار چار گاڑیاں دی ہوئی ہیں تا کہ ان کا غلط استعمال کسی کی نظر میں نہ آئے ۔ البتہ اسلام آباد میں ہمیں کبھی کبھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ سبز رجسٹریشن پلیٹ والی کار ایک ٹین ایجر چلائے جارہا ہے ۔ یہ بھی سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال ہے لیکن سندھ حکومت نمبر لے گئی ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔ ۔ ۔
Society’s role models
WHILE crossing through Karachi’s main Gizri in the afternoon the other day, I saw a newly-imported car without number plates being driven by a teenager escorted by a police mobile (SP 5778).The boy driving this posh car was talking on his cellphone while going through the busy road and the traffic policeman on duty was running around and controlling traffic so that this escorted car could find its way.One is sure the boy was the son of some high-placed politician in the Sindh cabinet. This is something which you see on Karachi roads everyday. I have some questions I hope somebody can answer.1) How can the government allow a car on the main streets without any registration and number plates to be protected by police mobiles?2) In Karachi people are paying a penalty of Rs 500 for talking on cellphones while driving, so why wasn’t this boy intercepted and penalized for violation of traffic rules?3) If a highly placed politician cannot control his family how can he play an effective role in running the government?NAVEED KHAN Karachi

Monday, August 15, 2005

جموں میں مسلمانوں کا قتل عام . JK12


جموں میں کرفیو لگا دیا گیا ۔ اس کرفیو میں ہندوؤں اور سکھوں کے مسلح دستے بغیر روک ٹوک پھرتے تھے مگر مسلمانوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ہمارے گھر کے قریب ہندوؤں کے محلہ میں دو اونچی عمارتوں پر بھارتی فوج نے مشین گنیں نصب کر لیں ۔ آنے والی رات کو دونوں عمارتوں کی چھتوں سے ہمارے گھر کی سمت میں متواتر فائرنگ شروع ہو گئی اس کے جواب میں مسلمانوں کے پاس سوائے نعرہء تکبیر اللہ اکبر کے کچھ نہ تھا کیونکہ ان کے ہتھیار پہلے ہی نکلوا لئے گئے تھے ۔ ہمارا گھر نشانہ بننے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس پر بہت بڑا اور بہت اونچا پاکستان کا جھنڈا لگا ہوا تھا اور دوسری یہ کہ میرے دادا جان مسلم کانفرنس کی مالی امداد کرتے تھے ۔

اگلی صبح دس سال سے ہمارا کرائے دار برہمن جس پر میرے دادا جان کے کئی احسان بھی تھے ہمارے گھر آیا اور کہنے لگا میں نے سوچا کہ کرفیو کی وجہ سے آپ کی زمینوں سے دودھ نہیں آیا ہوگا اسلئے میں اپنی گاؤ ماتا کا دودھ لے آیا ہوں ۔ اس وقت کسی کا کچھ کھانے پینے کو دل نہیں چاہ رہا تھا چنانچہ دودھ ابال کر رکھ دیا گیا ۔ بعد دوپہر دیکھا تو دودھ خراب ہو گیا تھا اسلئے باہر نالی میں پھینک دیا گیا ۔ تھوڑی دیر بعد باہر سے عجیب سی آواز آئی ۔ جا کر دیکھا تو ایک بلی تڑپ رہی تھی اور مر گئی ۔ وہ برہمن ہمدرد بن کر ہم سب کو زہر والا دودھ پلا کر مارنے آیا تھا ۔

ہمارے ہمسایہ عبدالمجید ریاست کی فوج میں کرنل تھے اور ان دنوں کشمیر کے کسی برفانی علاقہ میں تھے ۔ پتا چلا کہ ان کا خاندان ستواری (جموں چھاؤنی) جا رہا ہے ۔ ہمارے بزرگوں کے کہنے پر وہ ہم بچوں کو ساتھ لیجانے کو تیار ہو گئے ۔ اگلی رات ایک اور دو بجے کے درمیان ایک فوجی ٹرک پر میں ۔ میری دونوں بہنیں (بڑی) ۔ دو کزن اور ایک سترہ سالہ پھوپھی ان کے ساتھ چلے گئے ۔ کچھ آٹا۔چاول۔دالیں۔تیل زیتون ایک لٹر اور کچھ پیسے ہمیں دے دیئے گئے ۔

چھاؤنی میں بعض اوقات رات کو جے ہند اور ست سری اکال کے نعروں کی آوازیں آتیں جو کہ کبھی بہت قریب سے ہوتیں ۔ پتا چلا کہ مسلح ہندو اور سکھ پچاس یا زیادہ کے جتھوں میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے کبھی وہاں سے گذرتے ہیں ۔ حفاظت کا معقول انتظام نہ ہونے کے باعث ہم ہر وقت موت کے لئے تیار رہتے ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

Saturday, August 13, 2005

چٹکارے مزے دار ۔ اصل حال میرے دیس کا

حال میرے دیس کا


باعمل مسلمانوں سے پیشگی معذرت

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقان تومرکھپ گیا اب کس کوجگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہء گندم کہ جلاؤں
شاہین کا ہے گنبد شاہی پہ بسیرا
کنجشک فرومایہ کواب کس سے لڑاؤں

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
مکّاری و عیّاری و غدّاری و ہیجان
اب بنتا ہے ان چارعناصر سے مسلمان
قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو
اس نےتوکبھی کھول کےدیکھا نہیں قرآن

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
بیباقی و حق گوئی سےگبھراتا ہے مومن
مکّاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے کھاتا ہے مومن

اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
جھگڑے یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نصب کے
اگتے ہیں تہہ سایہء گل ۔ خار غضب کے
یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی
اس کےتن خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے

Wednesday, August 10, 2005

۔ انگریزوں کی عیّاری ۔ گورداسپور میں مسلمانوں کا قتل عام JK11


انگریز حکمرانوں نے پاکستان کی سرحدوں کا اعلان 14 اگست 1947 سے کچھ دن بعد کیا اور نہائت عیّاری سے گورداسپور جو کہ مسلم اکثریت والا ضلع تھا کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو جموں جانے کے لئے راستہ مہیا کر دیا جس کے نتیجہ میں گورداسپور میں تسلّی سے اپنے گھروں میں بیٹھے مسلمانوں کا قتل عام ہوا ۔

اکتوبر کے شروع میں ہی ڈوگرہ پولیس اور فوج نے صوبہ جموں کے مسلمانوں کے گھروں کی تلاشی لے کر ہر قسم کا اسلحہ بشمول کلہاڑیاں ۔ چار انچ سے لمبے پھل والے چاقو چھریاں سب برآمد کر لئے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ہندو اکثریت والے دیہات میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا اور ان کے مکانوں اور فصلوں کو نظر آتش کیا گیا ۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ ہندو کہتے ہیں مسلے عید پر جانور قربان کرتے ہیں اس عید پر ہم مسلے قربان کریں گے۔ عید الاضحے اتوار 26 اکتوبر 1947 کو تھی ۔

گاندھی ۔ نہرو اور پٹیل جموں سے ہوتے ہوئے سرینگر پہنچے اور مہاراجہ ہری سنگھ پر مختلف طریقوں سے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ۔ مسلمانوں کی طرف سے قرارداد الحاق پاکستان پہلے ہی مہاراجہ کے پاس پہنچ چکی تھی اس لئے مہاراجہ ہری سنگھ نے مہلت مانگی ۔ یہ کانگرسی لیڈر تین چار دن کے قیام کے بعد واپس چلے گئے اور عید الاضحے کے دوسرے دن یعنی 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوج نے جموں ایئر پورٹ پر دھڑا دھڑ اترنا شروع کر دیا اور جلد ہی پورے جموں میں پھیلنے کے علاوہ جموں کشمیر کی سرحدوں پر بھی پہنچ گئی ۔ بھارتی فوج میں زیادہ تعداد گورکھا اور نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کی تھی جو انتہائی ظالم اور بے رحم مشہور تھے ۔ بھارتی فوج کی پشت پناہی سے راشٹریہ سیوک سنگ جس کا مخفف آر ایس ایس ہے ۔ بھارتیہ مہاسبھا جو آجکل ہندوتوا کہلاتی ہے اور اکالی دل کے مسلح جتھے بھاری تعداد میں گورداسپور کے راستے جموں پہنچنا شروع ہو گئے
۔باقی انشاءاللہ آئیندہ

Tuesday, August 09, 2005

قومی نغمے

قربانی کے لئے
یہ میرا پاکستان ہے یہ تیرا پاکستان ہے
اس پر دل قربان اور جان بھی قربان ہے

حقوق کے لئے
یہ نہ میرا پاکستان ہے نہ تیرا پاکستان ہے
یہ اسکا پاکستان ہے جو صدر پاکستان ہے

شاعر نے لکھا
یہ وطن ہمارا ہے اسے ہم نے سنوارا ہے
اس کا ہر اک ذرّہ ہمیں جان سے پیارا ہے

ہوا کیا
یہ وطن ہمارا ہے جسے ہم نے بگاڑا ہے
اسکا ہرذرّہ اب آئی ایم ایف سےادھارا ہے

Saturday, August 06, 2005

۔ جموں میں تعلیم اور سیاست JK10


اتفاق کی بات ۔ آج میرا یوم پیدائش ہے اور میری زندگی کے ان واقعات کا بیان ہورہا ہے جنہوں نے دس سال کی عمر میں مجھے نہ صرف تجربہ کار اور پختہ دماغ بنا دیا بلکہ اللہ کی ذات میں میرا یقین اتنا پکا کر دیا کہ پھر الحمدللہ میرے دل میں اللہ کے سوا کبھی کسی کا خوف پیدا نہ ہوا ۔

مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت اچھا تھا ۔ ہمارے سکول میں با‍قی سکولوں سے بھی بہتر تھا مگر اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ چھ مسلمان اور سات ہندو تھے اور لڑکیوں میں ایک مسلمان ۔ ایک عیسائی اور چار ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947 میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے و‍قت میرا ہم جماعت رنبیر سنگھ جو مجھ سے تین سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر چاقو نکال کر میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک کچھ مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھث گیا ۔ دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا اور ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر سنگھ کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دیں ۔ میں نے منع کیا تو کیرتی نے کہا ہم تم مسلوں کو ختم کر دیں گے اور مجھ پر پل پڑا ۔ ہم گتھم گتھا ہو گئے میرا ایک مکا کیرتی کی ناک کو لگا اور خون بہنے لگا اس پر لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔

صوبہ کشمیر میں آبادی کا 97 فیصد مسلمان تھے ۔ صوبہ جموں کے تین اضلاع جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں غیر مسلم مسلمانوں سے زیادہ تھے اس کی وجہ وہ پنڈت جو جموں کے گورنر جگن ناتھ نے دوسرے علاقوں سے لا کر بسائے اور وہ ہندو جو مہاراجہ ہری سنگھ کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ صوبہ جموں کے باقی اضلاع میں مسلمان 60 سے 70 فیصد تھے جبکہ اوسط 64 فیصد مسلمان تھے ۔کلی طور پر صوبہ جموں میں مسلمانوں کی تعداد 50 فیصد سے خاصی زیادہ تھی ۔ پورے جموں کشمیر کی بنیاد پر مسلمانوں کی آبادی 80 فیصد سے زائد تھی ۔

جموں میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا ۔ 1947 کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں آٹھ سال اور اس سے بڑے بچوں کو بھی شامل کیا گیا جس میں میں بھی تھا ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے ۔ لے کے رہیں گے پاکستان ۔ بن کے رہے گا پاکستان ۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ ۔
What do you want “Pakistan”

مسلمانوں کو یقین تھا کہ جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گا ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے ۔ دوسرے جمموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 آگست 1947 کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر دادا جان نے پاکستان کا ایک بڑا سا جھنڈا ہمارے دومنزلہ مکان کی چھت پر 32 فٹ لمبے پائپ پر لگایا ۔
۔باقی انشاءاللہ آئیندہ

Tuesday, August 02, 2005

۔ جموں توی ۔ سرینگر ۔ ہندوؤں کا رویّہ JK9

ہماری رہائش جموں کشمیر کے سردیوں کے صدرمقام جموں توی کے سب سے بڑے محلہ میں تھی جس کے رہائشی سب مسلمان تھے ۔ اس محلہ کے ایک طرف دریائے توی اور ایک طرف نہر تھی ۔ ان دونوں کا فاصلہ ہمارے گھر سے ایک اور دو کلومیٹر کے درمیان تھا ۔ جموں شہر کے ڈھائی اطراف دریائے توی بہتا تھا اور ایک طرف دریائے چناب سے نکالی ہوئی نہر ۔ ایک جگہ نہر کے اوپر پل بنا کر دریائے توی کو نہر کے اوپر سے گذارا گیا تھا ۔ نہر کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا اس لئے ہم سردیوں میں توی پر اور گرمیوں میں نہر پر جاتے تھے ۔ توی کا پانی اتنا صاف و شفاف تھا کہ دریا کی تہہ میں لیٹی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی نظر آتی تھیں ۔ نہر کے پانی میں ریت ہوتی تھی ۔ ریت بیٹھ جائے تو پانی شفاف ہو جاتا تھا ۔

میرے والد صاحب کا کاروبار یورپ اور مشرق وسطہ میں تھا ۔ ان کا ہیڈکوارٹر طولکرم (فلسطین) میں تھا ۔ والد صاحب سال دوسال بعد جموں کچھ ماہ کے لئے آتے تھے اور کبھی ہماری والدہ صاحبہ کو بھی ساتھ لے جاتے ۔ 1946 میں والد صاحب ہماری والدہ صاحبہ اور چھوٹے بھائی کو فلسطین لے گئے اور میں اور میری دونوں بڑی بہنیں اپنے دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس رہے ۔ کیونکہ ہم سکول جاتے تھے ۔

جموں میں بارشیں بہت ہوتیں مگر برف شاذونادر ہی پڑتی ۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر واقع ہونے کی وجہ سے بارش کے بعد سڑکیں اور گلیاں صاف شفاف ہو جاتی تھیں ۔گرمیوں کا صدرمقام سرینگر ہے وہاں چھ ماہ برف جمی رہتی ہے ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہم سرینگر میں گذارتے اور اردگرد کے برف پوش پہاڑوں کی سیر بھی کرتے ۔ سرینگر میں ہم ہاؤس بوٹ میں رہتے تھے جس میں دو بیڈ رومز اٹیچڈ باتھ رومز اور ایک بڑا سا ڈائیننگ کم ڈرائینگ روم ہوتا تھا ۔ اس کے ساتھ ایک کک بوٹ ہوتی جس میں کچن کے علاوہ ملازمین کے لئے دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ۔
یہاں کلک کیجئے اس تصویر میں ہاؤس بوٹ کو دکان کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے
لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں پھول ۔ پھل ۔ سبزیاں اور مچھلی بیچنے آتے ۔ چھوٹی مچھلی وہ ساتھ نہیں لاتے بلکہ مانگنے پر اسی وقت جال پھینک کر پکڑ دیتے ۔

چاندنی راتوں میں شکارے میں دریا کی سیر کرتے بہت مزہ آتا ۔ شکارہ ایک چھوٹی سی مگر خوبصورتی سے سجی ہوئی کشتی ہوتی ہے جس میں بیٹھنے کی جگہ کے اردگرد مہین رنگدار کپڑے کے پردے لٹکے ہوتے ہیں ۔
یہاں کلک کیجئے اس تصویر میں شکارہ بغیر پردوں کے ہے ۔

ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان انتہائی اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ مندرجہ ذیل واقعات سے پتا چلتا ہے ۔

ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا ۔ مجھے گھر والوں کی طرف سے گھر کے باہر کچھ نہ کھانے پینے کی ہدائت شائد اسی وجہ سے تھی ۔

ایک برہمن فٹ پاتھ پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے یعنی گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا کپڑے بڑھشٹ کری گیا مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

Monday, August 01, 2005

شاہ فہد انتقال کر گئے

سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فہد بن عبدالعزیر طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں اور ولی عہد شہزادہ عبداللہ کو ان کا جانشین مقرر کیا گیا ہے ۔ سعودی عرب کے سرکاری ٹیلویژن پر ہونے والے اعلان کے مطابق ولی عہد شہزادہ عبداللہ ملک کے نئے بادشاہ بن گئے اور وزیر دفاع پرنس سلطان کو ولی عہد مقرر کیا گیا ہے