۔ جموں میں تعلیم اور سیاست JK10
مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کی غالب اکثریت اسلامیہ سکول یا سرکاری سکولوں میں پڑھتی تھی ۔ تعلیمی معیار سب سکولوں میں بہت اچھا تھا ۔ ہمارے سکول میں باقی سکولوں سے بھی بہتر تھا مگر اس میں مخلوط تعلیم تھی اسلئے مسلمان طلباء بالخصوص طالبات کی تعداد کم تھی ۔ ہماری جماعت میں لڑکوں میں ایک سکھ ۔ چھ مسلمان اور سات ہندو تھے اور لڑکیوں میں ایک مسلمان ۔ ایک عیسائی اور چار ہندو تھیں ۔ جب مارچ 1947 میں پاکستان بننے کا فیصلہ ہو گیا تو اگلے دن آدھی چھٹی کے وقت میرا ہم جماعت رنبیر سنگھ جو مجھ سے تین سال بڑا تھا نے قائداعظم کو گالی دی ۔ میرے منع کرنے پر چاقو نکال کر میرے پیچھے شانوں کے درمیان رکھ کر زور سے دبانے لگا ۔ اچانک کچھ مسلمان لڑ کے آ گئے اور وہ چلا گیا ۔ وہاں سے میرا کوٹ پھث گیا ۔ دو دن بعد ہمارا خالی پیریڈ تھا اور ہم کلاس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رنبیر سنگھ کے ایک دوست کیرتی کمار نے مسلمانوں کو گالیاں دیں ۔ میں نے منع کیا تو کیرتی نے کہا ہم تم مسلوں کو ختم کر دیں گے اور مجھ پر پل پڑا ۔ ہم گتھم گتھا ہو گئے میرا ایک مکا کیرتی کی ناک کو لگا اور خون بہنے لگا اس پر لڑکوں نے ہمیں علیحدہ کر دیا ۔
صوبہ کشمیر میں آبادی کا 97 فیصد مسلمان تھے ۔ صوبہ جموں کے تین اضلاع جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں غیر مسلم مسلمانوں سے زیادہ تھے اس کی وجہ وہ پنڈت جو جموں کے گورنر جگن ناتھ نے دوسرے علاقوں سے لا کر بسائے اور وہ ہندو جو مہاراجہ ہری سنگھ کی پالیسی کے تحت ہندوستان سے آ کر آباد ہوئے ۔ صوبہ جموں کے باقی اضلاع میں مسلمان 60 سے 70 فیصد تھے جبکہ اوسط 64 فیصد مسلمان تھے ۔کلی طور پر صوبہ جموں میں مسلمانوں کی تعداد 50 فیصد سے خاصی زیادہ تھی ۔ پورے جموں کشمیر کی بنیاد پر مسلمانوں کی آبادی 80 فیصد سے زائد تھی ۔
جموں میں تعلیم سو فیصد تھی اس لئے جموں شہر سیاست کا گڑھ تھا ۔ 1947 کی ابتداء سے ہی جموں کے مسلمانوں کے جلسے جلوس آئے دن کا معمول بن گیا تھا ۔ ایک دفعہ جلوس میں آٹھ سال اور اس سے بڑے بچوں کو بھی شامل کیا گیا جس میں میں بھی تھا ۔ ان جلوسوں میں یہ نعرے لگائے جاتے ۔ لے کے رہیں گے پاکستان ۔ بن کے رہے گا پاکستان ۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الاللہ ۔
مسلمانوں کو یقین تھا کہ جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہو گا ایک تو وہاں مسلمان کافی غالب اکثریت میں تھے ۔ دوسرے جمموں کشمیر کی سرحدوں کے ساتھ سب اضلاع مسلم اکثریت کے علاقے تھے ۔ چنانچہ 14 آگست 1947 کو پاکستان کا یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ۔ میری خواہش پر دادا جان نے پاکستان کا ایک بڑا سا جھنڈا ہمارے دومنزلہ مکان کی چھت پر 32 فٹ لمبے پائپ پر لگایا ۔
6 Comments:
At 6:30 pm, Anonymous said…
Happy BirthDay To You - May you Have Many Many More !
Lubna
At 8:01 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
Thank you Lubna Baytee. Please convey my salaam to Shahid and love to Osama and Hira.
How is the weather in California ?
At 9:04 pm, Jahanzaib said…
AOA
Happy birthday to, i did send something to you, but i am afraid you did not recieve it :(
At 9:26 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
Yes, thank you. I received that this morning. I have already sent an e-mail to you in this regard.
At 4:19 pm, Anonymous said…
Dang! I am late.
happy Birthday sir.
There could not have been a better run up to the yaum e azadi on blogosphere than your memoirs of 1947 in JK.
At 10:15 am, افتخار اجمل بھوپال said…
Ms A:
I am grateful for your felicitation. It is never too late. I pray for you good health, prosperity and everlasting satisfaction. Thank you for appreciating the post.
Post a Comment
<< Home