ميں مسکرایا پھر افسوس بھی ہوا
میں ایک سے زائد بار لکھ چکا ہوں کہ میں نے خود سیکھنے اور اپنا علم اور تجربہ دوسروں تک پہنچانے کے لئے روزنامچہ لکھنا شروع کیا تھا ۔ اس سلسہ میں بعض اوقات بحث سے علم میں اضافہ ہوتا ہے لیکن کبھی ایسے لگتا ہے جیسے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔ میں ایسی صورت میں عام طور پر اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہوں ۔ آج بھی میں نے یہی سوچا تھا لیکن چونکہ سب کچھ مشکوک بن گیا ہے اس لئے کچھ لکھنا لازم ہو گیا ہے ۔
انلائیٹنڈ ماڈریشن کے پرستار سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اسلام ہی وہ دین ہے جس نے دنیا کو انلائیٹن کیا اور انسانوں کو ماڈریشن کی ہدائت کی ۔ یہ پیغام چودہ سو سال پہلے اللہ سبحانہ و تعالی نے حضرت محمد صلّ اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے ذریعہ تمام انسانوں تک پہنچا دیا ۔ اب پرویز مشرف اور اس کے پیروکار نمعلوم کونسی بانسری بجا رہے ہیں ۔ اسلام صرف اسلام ہے اس کے ساتھ کسی لاحقے یا سابقے کی ضرورت نہیں ۔ جب اللہ نے اسلام کو مکمل دین قرار دے دیا تو اس کو پرانا یا دقیانوسی کہنے والے اور ترامیم سوچنے والے کیا اپنے آپ کو اللہ عزیزالحکیم کے برابر یا زیادہ عقلمند سمجھتے ہیں ۔؟ نعوذ باللہ من ذالک
ٹھیک ہے کہ کلمہ پڑھنے سے انسان مسلمان ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی سوچیں کہ کلمہ میں پڑھتے کیا ہیں ۔ نہیں کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمد اس کے پیغام لانے والے ہیں ۔ یعنی صرف اللہ کو معبود ماننا اور یہ کہ رسول اکرم نے جو کچھ کہا وہ اللہ کی طرف سے ہے ۔ معشوق کی خوشنودی کے لئے عاشق کیا کچھ نہیں کرتا ۔ معبود کا درجہ معشوق سے بہت بلند ہے ۔ زندگی کا ہر عمل معبود کی خواہش کے مطابق کرنا پڑتا ہے ۔ معشوق کے لئے عاشق تخت چھوڑ دیتا ہے ۔ فقیر بنتا ہے ۔مہینوال بنتا ہے ۔ نہریں کھودتا ہے ۔ مجنون ہو جاتا ہے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی تو اایسا نہیں چاہتا ۔ وہ تو صرف ہماری بہتری کے لئے ہمیں ایک اچھی اور باعزت زندگی گذارنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ ہم لوگ تو قرآن شریف کو سمجھنے کی کوشش کئے بغیر ترامیم بتانے لگ گئے ہیں کیا سائنس یا حساب کے ساتھ کبھی ہم نے ایسا کیا ہے ؟
پرویز مشرف صاحب کے حکومت پر قبضہ کرنے سے پہلے تقریبا چار ہزار مدرسے رجسٹرڈ تھے ۔ اس کے بعد نیا قانون بننے سے پہلے تک مزید کوئی مدرسہ رجسٹر نہیں ہوا تھا ۔ جو مدرسے رجسٹر نہیں ہوئے تھے وہ اس قابل نہیں تھے ۔ اس سلسہ میں انشاء اللہ پھر کبھی لکھوں گا ۔
مہاجر کا لاحقہ از خود نہیں بلکہ مجبور ہوکر چھوڑا گیا تھا ۔ لیکن یہ لاحقہ لگانے کا مقصد کیا تھا سوائے اس کے کہ وہ لوگ اپنے آپ کو مقامی یعنی پاکستانی نہیں سمجھتے تھے ۔ ذرا ماضی پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ مہاجر قومی موومنٹ مارچ 1984 میں بطور سٹوڈنٹ آرگنائزیشن معرض وجود میں آئی ۔ اس وقت پاکستان بنے 37 سال ہو چکے تھے ۔ اس وقت کے یونیورسٹی کے طلباء اور طالبات پاکستان بننے کے دس پندرہ سال بعد پاکستان میں پیدا ہونے کے باعث پیدائشی پاکستانی تھے ۔
دو سال بعد اگست میں ان کا پہلا سیاسی جلسہ نشتر پارک میں ہوا جس میں بہت سے جوان پستولوں اور بندوقوں سے نہ صرف لیس تھے بلکہ خوشی کے اظہار کے لئے انہوں نے خوب ہوائی فائرنگ کی ۔ اس قسم کی ہوائی فائرنگ پہلے صرف سرحد کے قبائلیوں کا امتیاز تھی ۔ اسلحہ کی اس نمائش کا کیا مقصد تھا ؟
محظ اتفاق ہے کہ جنوری 1989 کے آخری دنوں میں این ای ڈی انجئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کے ساتھ میری میٹنگ تھی ۔ میں وہاں پہنچا تو ایسا سماں تھا جیسے ایک ملک پر کسی دوسرے ملک کا قبضہ ہو گیا ہو ۔ میرے ڈرائیور نے گاڑی روکی مگر میں نے اسے چلنے کا کہا ۔ لڑکے آ ئے اور گاڑی کو گھیر لیا ۔ ان میں سے ایک نے جھک کر گاڑی کی نمبر پلیٹ دیکھی اور سب کو ہٹنے کا اشارہ کیا ۔ واقعہ بہت لمبا ہے ۔مختصر یہ کہ میں نے ایسی غنڈہ گردی پہلے کبھی یونیورسٹی کے باہر بھی نہ دیکھی تھی ۔ یونیورسٹی پر ایم کیو ایم کا سٹوڈنٹ ونگ قبضہ کر چکا تھا ۔
شومئی قسمت فروری کے تیسرے ہفتہ میں انجنئرنگ یونیورسٹی اور کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحبان کے ساتھ میری میٹنگ تھی ۔ میں جب کراچی یونیورسٹی پہنچا تو وہاں حالات کچھ زیادہ ہی خراب تھے ۔ وائس چانسلر صاحب دفتر میں موجود نہیں تھے کسی متعلقہ شخص نے بتایا کہ میٹنگ کے متعلق انہوں نے انجنئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کو ٹیلی فون کیا تھا ۔ قصہ کوتاہ اس دن ایم کیو ایم کی کے سٹوڈنٹ ونگ نے کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کے دفتر کو آگ لگا دی تھی ۔
دانیال صاحب اخباری رپورٹوں کو نہیں مانتے ۔ کمال یہ ہے کہ ایم کیو ایم نے ڈان کی تیس ہزار کاپیاں زبردستی اٹھا کر جلائیں ۔ جنگ اخبار کے دفتر کو آگ لگائی ۔ نوائے وقت والوں کو دھمکیاں دیں ۔ صحافیوں اور ہاکروں کی پٹائی کی ۔ باقی اخباروں کا مجھے علم نہیں کیا ہوا ۔ کیا سب اخبار اور ان کے رپوٹر صرف ایم کیو ایم کے ہی دشمن تھے ؟ آخر کیوں ؟
دانیال صاحب جموں کشمیر میں بھارتی درندگی کے خلاف حق خود ارادی کی تحریک چلانے والوں کو بھی دہشت گرد کہتے ہیں ۔ اگر کسی کے باپ ۔ بھائی یا جوان بیٹے کو اذیّتیں دے کر مار دیا جائے اور کچھ دن یا کچھ ہفتوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملے ۔ اگر کسی کی ماں ۔ بہن ۔ بیوی یا بیٹی کی آبروریزی کی جائے ۔ اگر کسی کا گھر ۔ کاروبار یا کھیت جلا د ئیے جائیں ۔ تو کیا وہ شخص ظلم کرنے والے درندہ صفت لوگوں سے کہے گا ۔ آؤ ہم اک دوجے کے ہو جائیں اور اکٹھے بیٹھ کے آئس کریم کھائیں ؟
4 Comments:
At 9:12 am, Danial said…
پہلی بات تو یہ ہے کہ میرا مقصد قطعا کسی کو بھی نیچا دکھانا نہیں تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میرے الفاظ سے آپ کو ایسا تاثر ملا۔
میں نہ انلائٹینڈ ماڈریشن کا پرستار پوں اور نہ پرویز مشرف کا۔ اور تعلیمی نصاب کی بات تو اسلئیے چھڑی کہ ہم مدرسوں کے نصاب کے بارے میں پہلے بات کرچکے تھے۔ میں نے کب کہا کہ میں کشمیری حق خودارادیت کی جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد سمجھتا ہوں؟ شاید آپ کو یاد نہیں لیکن میں نے ہی آپ سے فرمائش کری تھی کہ آپ کشمیر کے بارے میں لکھیں۔ میں جن لوگوں کو دہشت گرد سمجھتا ہوں یہ وہ لوگ ہیں جو کشمیریوں کی جدوجہد کو پاکستان میں اپنے سیاسی اور نظریاتی مقاصد کے لئیے استعمال کرتے ہیں۔ میرے خیال میں انہی لوگوں کی وجہ سے کشمیری ہر دس قدم آگے بڑھنے کے بعد نو قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
گرچہ آپ کی اس پوسٹ میں بھی ایسی کئی باتیں ہیں جو قابل بحث ہیں مگر میرے خیال میں میری بحث آپکو رنجیدہ کرتی ہے۔ جس کے لئیے میں بہت شرمندہ ہوں اور معافی کا طلبگار ہوں۔
At 10:46 am, افتخار اجمل بھوپال said…
دانیال صاحب
میں آپ کا مشکور ہو ں کہ مجھ سے معذرت کی ۔ میں نہ تو ناراض ہوا اور نہ میری ایسی عادت ہے ۔ ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے ۔ میں اس نقطہ پر پہنچنے کی کوشش میں ہوں کہ
کسی بھی کمیونٹی یا جماعت کو بحثیت مجموعی برا نہیں کہنا چاہیئے
کسی بھی شخص کو گالی یا برے نام سے مخاطب نہیں کرنا چاہیئے ۔
کسی دین یا مذہب کو برا نہیں کہنا چاہئیے ۔
کسی دین یا مذہب کو پوری طرح سمجھے بغیر اس پر رائے نہیں دینا چاہیئے ۔
At 3:41 pm, Saqib Saud said…
just got the jamat's point of view about the recent elections بلدیاتی انتخابات
اور کراچی حار گیا
Thanks to MR.Danial
At 7:29 am, Anonymous said…
Wisesabre
Thank you for the link
قدیر احمد رانا صاحب
آپ کا بھی شکریہ
Post a Comment
<< Home