. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Tuesday, August 02, 2005

۔ جموں توی ۔ سرینگر ۔ ہندوؤں کا رویّہ JK9

ہماری رہائش جموں کشمیر کے سردیوں کے صدرمقام جموں توی کے سب سے بڑے محلہ میں تھی جس کے رہائشی سب مسلمان تھے ۔ اس محلہ کے ایک طرف دریائے توی اور ایک طرف نہر تھی ۔ ان دونوں کا فاصلہ ہمارے گھر سے ایک اور دو کلومیٹر کے درمیان تھا ۔ جموں شہر کے ڈھائی اطراف دریائے توی بہتا تھا اور ایک طرف دریائے چناب سے نکالی ہوئی نہر ۔ ایک جگہ نہر کے اوپر پل بنا کر دریائے توی کو نہر کے اوپر سے گذارا گیا تھا ۔ نہر کا پانی بہت ٹھنڈا ہوتا تھا اس لئے ہم سردیوں میں توی پر اور گرمیوں میں نہر پر جاتے تھے ۔ توی کا پانی اتنا صاف و شفاف تھا کہ دریا کی تہہ میں لیٹی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں بھی نظر آتی تھیں ۔ نہر کے پانی میں ریت ہوتی تھی ۔ ریت بیٹھ جائے تو پانی شفاف ہو جاتا تھا ۔

میرے والد صاحب کا کاروبار یورپ اور مشرق وسطہ میں تھا ۔ ان کا ہیڈکوارٹر طولکرم (فلسطین) میں تھا ۔ والد صاحب سال دوسال بعد جموں کچھ ماہ کے لئے آتے تھے اور کبھی ہماری والدہ صاحبہ کو بھی ساتھ لے جاتے ۔ 1946 میں والد صاحب ہماری والدہ صاحبہ اور چھوٹے بھائی کو فلسطین لے گئے اور میں اور میری دونوں بڑی بہنیں اپنے دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس رہے ۔ کیونکہ ہم سکول جاتے تھے ۔

جموں میں بارشیں بہت ہوتیں مگر برف شاذونادر ہی پڑتی ۔ پہاڑ کی ڈھلوان پر واقع ہونے کی وجہ سے بارش کے بعد سڑکیں اور گلیاں صاف شفاف ہو جاتی تھیں ۔گرمیوں کا صدرمقام سرینگر ہے وہاں چھ ماہ برف جمی رہتی ہے ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ہم سرینگر میں گذارتے اور اردگرد کے برف پوش پہاڑوں کی سیر بھی کرتے ۔ سرینگر میں ہم ہاؤس بوٹ میں رہتے تھے جس میں دو بیڈ رومز اٹیچڈ باتھ رومز اور ایک بڑا سا ڈائیننگ کم ڈرائینگ روم ہوتا تھا ۔ اس کے ساتھ ایک کک بوٹ ہوتی جس میں کچن کے علاوہ ملازمین کے لئے دو چھوٹے چھوٹے کمرے ہوتے ۔
یہاں کلک کیجئے اس تصویر میں ہاؤس بوٹ کو دکان کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے
لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں پھول ۔ پھل ۔ سبزیاں اور مچھلی بیچنے آتے ۔ چھوٹی مچھلی وہ ساتھ نہیں لاتے بلکہ مانگنے پر اسی وقت جال پھینک کر پکڑ دیتے ۔

چاندنی راتوں میں شکارے میں دریا کی سیر کرتے بہت مزہ آتا ۔ شکارہ ایک چھوٹی سی مگر خوبصورتی سے سجی ہوئی کشتی ہوتی ہے جس میں بیٹھنے کی جگہ کے اردگرد مہین رنگدار کپڑے کے پردے لٹکے ہوتے ہیں ۔
یہاں کلک کیجئے اس تصویر میں شکارہ بغیر پردوں کے ہے ۔

ریاست میں باقی ہندوستان کے لوگوں کو مستقل رہائش کی اجازت نہ تھی مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوؤں کو یہ اجازت دے دی جس کے بعد جموں ۔ کٹھوعہ اور اودھم پور میں ہندوستان سے آ کر کافی ہندو آباد ہو گئے ۔ باوجود مسلمان انتہائی اکثریت میں ہونے کے ہندوؤں کا مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ مندرجہ ذیل واقعات سے پتا چلتا ہے ۔

ایک دفعہ ہم کھیل کر واپس آ رہے تھے ۔ راستہ میں ایک ہندو لڑکے نے ایک ہندو دکاندار سے پانی مانگا تو اس نے پانی کا گلاس دیا اور اس نے پی لیا ۔ پھر ایک مسلمان لڑکے نے پانی مانگا تو اس نے کہا چلّو کرو اور گلاس کے ساتھ ڈیڑھ فٹ اونچائی سے پانی لڑکے کے چلّو میں پھینکنا شروع کیا ۔ مجھے گھر والوں کی طرف سے گھر کے باہر کچھ نہ کھانے پینے کی ہدائت شائد اسی وجہ سے تھی ۔

ایک برہمن فٹ پاتھ پر جا رہا تھا کہ وہاں کھڑی ایک گائے نے پیشاب کیا جو برہمن کے کپڑوں پر پڑا تو برہمن بولا پاپ چڑی گئے پاپ چڑی گئے یعنی گناہ جھڑ گئے ۔ کچھ دن بعد وہی برہمن گذر رہا تھا کہ ایک مسلمان لڑکا بھاگتے ہوئے اس سے ٹکرا گیا تو برہمن چیخا کپڑے بڑھشٹ کری گیا مطلب کہ کپڑے پلید کر گیا ہے اور اس لڑکے کو کوسنے لگا ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

1 Comments:

Post a Comment

<< Home