سندھ حکومت نمبر لے گئی
Society’s role models
WHILE crossing through Karachi’s main Gizri in the afternoon the other day, I saw a newly-imported car without number plates being driven by a teenager escorted by a police mobile (SP 5778).The boy driving this posh car was talking on his cellphone while going through the busy road and the traffic policeman on duty was running around and controlling traffic so that this escorted car could find its way.One is sure the boy was the son of some high-placed politician in the Sindh cabinet. This is something which you see on Karachi roads everyday. I have some questions I hope somebody can answer.1) How can the government allow a car on the main streets without any registration and number plates to be protected by police mobiles?2) In Karachi people are paying a penalty of Rs 500 for talking on cellphones while driving, so why wasn’t this boy intercepted and penalized for violation of traffic rules?3) If a highly placed politician cannot control his family how can he play an effective role in running the government?NAVEED KHAN Karachi
6 Comments:
At 4:09 pm, Manzoor Khan said…
Dear Ajmal Sahib,
Aadaab. Our countries may have thousands of differences, but both are basically made of same "Mitti".
In India, too, if you are a son of any politician or a beuracrat, you can get away from the law.
Just for example, you may like to read this: http://www.newsindia-times.com/2002/02/15/india-hit.html
At 7:28 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
Thank you for your comment. I recall that I had read this news. I sometimes read Indian news papers on the net.
At 11:22 am, خاور کھوکھر said…
انگلش ميں لكهى هوى يه پوسٹ اور منظور خان صاحب كى تجويز كرده سائٹ والى خبر سے مجهے تو يه احساس هوتا هے كه انڈيا ميں كم از كم عدالت كچهـ كر تو رهى هے
ان دونوں واقعات ميں كامن بات صرف يه هے كه دونوںبچے ايليٹ سے تعلق ركهتے ەيں ـ مگر انڈيا اور پاكستان كى ايليٹ ميں زمين اسمان كا فرق هے ـ پاكستان ميں قانون كے محافظ ايليٹ كى بے قانونى كو تحفظ دے رهے هيں ـ
اور انڈيا ميں قانون كے محافظ قانون كى بالادستى كے لئے اپنى سى كوشش كر رهے هيں ـ
ميں انڈيا كى حمايت نهيں كر رها ـ صرف واقعات كے اس تقابل سے پاكستانى مجهے غدّار نه كهنے لگيں
At 2:18 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
خاور صاحب
آپ کا خیال ٹھیک ہے ہمارے ملک مطلق العنانی ہے ۔ بھارت میں ایسا نہیں ہے ۔
At 2:24 pm, Danial said…
پہلی بات تو یہ کہ آپکی پوسٹ کا عنوان درست نہیں۔ میں ان دنوں لاہور میں ہوں اور یہاں آرمی والوں اور سیاستدانوں کے لڑکے کیا کر رہے ہیں ان پر تو پورے دیوان لکھے جاسکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ اس خط میں لکھنے والے نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں یہ کیسے پتہ چلا کہ مذکورہ گاڑی سندھ کابینہ کے کسی وزیر کی ہے؟ یہ ضروری نہیں کہ وہ گاڑی سندھ حکومت کے کسی وزیر ہی کی تھی۔
تیسری بات یہ کہ کراچی میں بغیر نمبر کی گاڑی چلانے کے لئیے عارضی طور ہر ایک اجازت نامہ ملتا ہے۔ اور ہزاروں شہری روزانہ گاڑی چلاتے ہوئے موبائل فون پر باتیں کرتے ہیں۔
At 8:50 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
دانیال صاحب
پوسٹ کا عنوان اس سے بہتر میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ آپ تجویز کر دیجئے ۔ آپ جن کی بات کر رہے ہیں اوپر والی پوسٹ کے پہلے ہی فقرہ بہت واضح ہے ۔ اخبار میں خط لکھنے والا اگر وزیر کی بجائے گورنر یا وردی والے کا ذکر کر دیتا تو اس کا خط چھپتا ہی نہیں ۔ مان لیا کہ ہزاروں آدمی ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون استعمال کرتے ہیں تو کیا اس سے قانون کی خلاف ورزی جائز ہو گئی ؟ بات تو یہ تھی کہ کے پولیس پٹرول کے سامنے قانون توڑا جا رہا تھا
Post a Comment
<< Home