. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Thursday, August 18, 2005

نہرمیں خون وہ بولاسب مرگئےاور بےہوش ہوگیا JK13

کھانا پکانے کے لئے میں اپنے کزن کے ساتھ باہر سے سوکھی تھور جسے انگریزی میں کیکٹس کہتے ہیں توڑ کے لاتا تھا جس سے میری ہتھیلیاں کانٹوں سے چھلنی ہوگئیں تھیں ۔ جب تک میں واپس نہ آتا میری بہنیں میری خیریت سے واپسی کی دعائیں مانگتی رہتیں ۔ ہمارے پاس کھانے کا سامان تھوڑا تھا اور مزید لانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے ہم تھوڑا ہی کھاتے ۔ جب زیتون کا تیل ختم ہو گیا تو ابلے پھیکے چاولوں پر بغیر پیاز لہسن نمک مرچ مصالحہ صرف ابلی ہوئی دال ڈال کر کھا لیتے ۔

ہمارے ساتھ اس کوٹھی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹا میں 10 سال کا ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئے 6 نومبر 1947 بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون اور خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور الٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کچھ دیر بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ خاتون خانہ نے سب خواتین اور لڑکیوں کو اندر بھیج دیا پھر ایک ڈنڈا انہوں نے اٹھایا اور ہم نے ان کی تقلید کی ۔ دوبارہ زور سے دستک ہوئی ۔ خاتون خانہ نے مجھے کنڈی کھولنے کا اشارہ کیا ۔ جونہی میں نے کنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا اور سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ سب ششدر رہ گئے ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا بھائی جان کیا ہوا ؟ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے عزیز و اقارب سب مار دیئے گئے ہیں سو سب زار و قطار رونے لگ گئے ۔ پھر اسے اٹھا کر اندر لے گئے ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا ۔

ہوش میں آنے پر اس نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل عام کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔

نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمانوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ ادھر ادھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ الٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا ۔ مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ بسیں خون سے لت پت تھیں ان کے اندر بھی لاشیں تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی خون آلود لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا
۔باقی انشاءاللہ آئیندہ

5 Comments:

  • At 7:18 am, Anonymous Anonymous said…

    I like this delightful blog site. Enjoyed it.
    Have a nice day and come visit cartoon animals
    Much info about cartoon animals

     
  • At 1:34 am, Blogger Saqib Saud said…

    اب کے ہم بچھڑے تو شايد کبھي خوابوں ميں مليں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں ميں مليں
    ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں ميں وفا کے موتی
    يہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں ميں مليں
    غم دنيا بھي غم يار ميں شامل کر لو
    نشہ برپا ہے شرابيں جو شرابوں ميں مليں
    تو خدا ہے نہ ميرا عشق فرشتوں جيسا
    دونوں انساں ہيں تو کيوں اتنے حجابوں ميں مليں
    آج ہم دار پہ کھينچے گئے جن باتوں پر
    کيا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں ميں مليں
    اب نہ وہ ميں ہوں نہ تو ہے نہ وہ ماضي ہے فراز
    جيسے دو سائے تمنا کے سرابوں ميں مليں

    احمدفراز

     
  • At 7:29 am, Blogger افتخار اجمل بھوپال said…

    Wisesabre
    اچھے شعر ہیں ۔ میری کمزوری یہ ہے کہ میں نے احمد فراز کے اشعار بہت کم پڑھے ہیں ۔

     
  • At 12:23 am, Blogger Saqib Saud said…

    janab sher-o-shairi sae to mujha koi khass dil chaspi nehi ha...
    mager faraz ka yeh sheer jab sae mana pheli dafa suna ha tab sae mujha bohat pasand ha.
    mujha jhan tak yaad perta ha yeh bandladesh ka bara main hain...
    mager yeh kai jagha fit ata ha

     
  • At 6:39 am, Blogger افتخار اجمل بھوپال said…

    Wisesabre
    دراصل جس زمانہ میں احمد فراز مشہور ہوا ان دنوں میں کسی بہتر کام میں بہت مصروف تھا اور شعر و شاعری کی طرف توجہ نہ تھی

     

Post a Comment

<< Home