. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Monday, August 22, 2005

۔ مسللمانوں کا قتل عام اور خواتین کا اغواء JK14

ہم دو دن رات روتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا ۔ آخر تیسرے دن خاتون خانہ نے خالی چاول ابالے ۔ ہم سب بچوں کو پیار کیا اور تھوڑے تھوڑے چاول کھانے کو دیئے ۔

تین یا چار دن بعد ایک ادھیڑ عمر اور ایک جوان خاتون اور ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی آئے ۔ جوان خاتون کی گردن میں پچھلی طرف ایک انچ چوڑا اور کافی گہرا زخم تھا جس میں پیپ پڑ چکی تھی ۔ یہ لوگ جموں میں ہمارے محلہ دار تھے ۔ لڑکی میرے ہم جماعت ممتاز کی بڑی بہن تھی جوان خاتون اس کی بھابھی اور بڑی خاتون اس کی والدہ تھیں ۔ ان کا پورا خاندان 6 نومبر والے قافلہ میں تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ مردوں بڑی عمر کی عورتوں اور بچوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور جوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔ وہ بس سے نکل بھاگے ۔ ممتاز کی بھابھی اور دو نوں بہنوں نے اغواء سے بچنے کے لئے نہر میں چھلانگیں لگائیں ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے ایک کافر نے نیزے سے وار کیا جو بھابھی کی گردن میں لگا ۔ خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ گر کر بیہوش ہوگئي ۔ پھر گولیاں چلنی شروع ہو گئیں ۔ ممتاز کی والدہ گولیوں سے بچنے کے لئے زمین پر لیٹ گئی اس کے اوپر چار پانچ عورتوں مردوں کی لاشیں گریں اس کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں مگر وہ اسی طرح پڑی رہی ۔ اس نے دیکھا کہ ایک شیرخوار بچے کو ماں سے چھین کر ہوا میں اچھالا اور نیزے سے ہلاک کر دیا ۔

شور شرابا ختم ہونے پر اسے خیال ہوا کہ بلوائی چلے گئے ۔ بڑی مشکل سے اس نے اپنے آپ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگی ۔ تینوں بیٹوں اور باقی رشتہ داروں کی لاشوں پر اور اپنی بے چارگی پر آنسو بہاتی رہی ۔ اچانک بہو اور بیٹیوں کا خیال آیا اور اٹھ کر دیوانہ وار نہر کی طرف بھاگی ۔ بہو نہر کے کنارے پڑی ملی اس کے منہ میں نہر کا پانی ڈالا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بیٹی آ کر چیختی چلّاتی ماں اور بھابھی کے ساتھ لپٹ گئی ۔ اس نے بتایا کہ چھوٹی بہن ڈوب گئی ۔ وہ نہر کی تہہ میں تیرتی ہوئی دور نکل گئی تھی اور واپس سب کو ڈھونڈنے آئی تھی ۔

ماں بیٹی نے بہو و بھابھی کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اس کے بازو اپنی گردنوں کے گرد رکھ کر چل پڑے ۔ ایک نمعلوم منزل کی طرف ۔ رات ہو گئی تو جنگلی جانوروں سے بے نیاز وہیں پڑ رہیں ۔ صبح ہوئی تو پھر چل پڑیں ۔ چند گھینٹے بعد دور ایک کچا مکان نظر آیا ۔ بہو اور بیٹی کو جھاڑیوں میں چھپا کر بڑی خاتون مکان تک گئی ۔ کھانے کو کچھ نہ لائی ۔ جیب خالی تھی اور بھیک مانگنے کی جراءت نہ ہوئی ۔ جموں چھاؤنی کا راستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی تک سارا سفر مخالف سمت میں طے کیا تھا ۔ چاروناچار الٹے پاؤں سفر شروع کیا ۔ بھوک پیاس نے ستایا تو جھاڑیوں کے سبز پتے توڑ کے کھا لئے اور ایک گڑھے میں بارش کا پانی جمع تھا جس میں کیڑے پڑ چکے تھے وہ پی لیا ۔ چلتے چلتے پاؤں سوج گئے ۔ مزید ڈھیڑ دن کی مسافت کے بعد وہاں پہنچے جہاں سے وہ چلی تھیں ۔ حد نظر تک لاشیں بکھری پڑی تھیں اور ان سے بدبو پھیل رہی تھی ۔ نہر سے پانی پیا تو کچھ افاقہ ہوا اور آگے چل پڑے ۔ قریب ہی چار کھمبے تھے تقریبا ایک میٹر سکویئر کے کونوں پر ۔ ایک عورت کی برہنہ لاش کو اس طرح باندھا ہوا تھا کہ ایک بازو ایک کھمبے سے دوسرا بازو دوسرے کھمبے سے ایک ٹانگ تیسرے کھمبے سے اور دوسری ٹانگ چوتھے کھمبے سے ۔ اس کی گردن سے ایک کاغذ لٹکایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا یہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہا ہے ۔

چار ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947 کو ختم ہوئے بھارتی فوج ۔ مہاراشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دل کے مسلحہ لوگوں نے صوبہ جموں میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا ۔ سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لیں اور لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا ۔ تیس ہزار سے زائد مسلمان صرف نومبر کے پہلے چھ دنوں میں ہلاک کئے گئے ۔ اغواء ہونے والی لڑکیوں میں مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس اور نائب صدر چوہدری حمید اللہ کی بیٹیاں بھی شامل تھی ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

6 Comments:

  • At 10:05 pm, Blogger Saqib Saud said…

    main 5 min sae yeh soch raha hun kia likho...
    bohat sara khail aia jo khial hi reha.


    bas yeh haqeqt ha jo mujha samjh ai.


    ham bohat buzdil hain.koch nehi ker sakta.apni MAH behno ki izat gunwa dena ka bad b hamain hosh nehi aia..

    pata nehi am log kis cheez ka intazar ker reha hain.

    main na naseem hejazi ka novel parha tha "Akhari chetan" , is ka waqiat or ajj kal ka waqiat mujha to aik jasa hi lagta hain.
    app is novel main baghdad ki jagha "Pakistan" ,Khalifa ki jagha "president"or tatari ki jagha "america" rakh ker perhain to app ko bohat maza aia ga.

     
  • At 10:37 pm, Blogger Saqib Saud said…

    pata nehi ham har kam kiwn adhora kerta hai....
    adhora muslman
    adhori taleem
    adhora hukmran
    adhora mulvi
    adhora ustad
    adhora danashwar
    adhori Foj
    ...................................

     
  • At 8:47 am, Blogger افتخار اجمل بھوپال said…

    Wisesabre
    مجھے اس سلسلہ وار مضمون کا خیال اس لئے آیا کہ لوگ آزاد خیال بننے کے شوق میں یہاں تک کہہ گئے کہ جموں کشمیر کے مسئلہ کی وجہ سے پاکستان غریب ہو گیا بھارت سے دوستی کرو یعنی کشمیری جائیں بھاڑ میں ۔ ہمارے ملک میں لوگ اتنے بے غیرت ہوتے جا رہے ہیں کہ ایک امریکن کا کہا صحیح معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی دس ڈالر کی خاطر اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں ۔ میرے علم میں ایسے شرمناک واقعات ہیں کہ میں لکھنا یا بولنا بھی گناہ سمجھتا ہوں ۔ حیرت تو یہ ہے پڑھا لکھا طبقہ جس سے بہتری کی امید ہوتی ہے وہ کہاں مر گئے ہیں ۔

     
  • At 12:36 pm, Blogger Saqib Saud said…

    جناب آج کی نوجوان نسل گمرہ ہے۔
    انٹر میں ایک دفعہ ہمارے استاد نے 30-35 کی کلاس سے یہ پو چھا کہ آپ کو حمودالرحمان کمشن رپورٹ کا پتا ہے،تو پوری کلاس میں سے صرے ایک بچے کو پتا تھا۔

     
  • At 9:52 pm, Blogger Saqib Saud said…

    اجمل صاحب ایک سوال ہے۔بس ایک ہی۔


    مجھے یہ بتائیں کے اب تک کشمیر آزاد کیوں نہیں ہوا؟
    آزادی حاصل کر نے کے لیے ہر طرح کی چیزیں تو میسر ہیں۔
    مثلا افراد،بیرونی امداد،اسلحہ،چھپنے کے لیے جگہ۔۔۔
    چیچنیا اور عراق والے تو ان سب کے بغیر بھی لڑ رھے ہیں۔

     
  • At 10:01 pm, Blogger افتخار اجمل بھوپال said…

    Wisesabre
    کاش ایسا ہوتا جیسا آپ نے لکھا ہے ۔ آپ نے سنا ہو گا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ۔

    کچھ دن صبر کیجئے میں اس کے متعلق بھی انشاء اللہ لکھوں گا

     

Post a Comment

<< Home