سید عدنان علی نقوی، کراچی
اس زلزلے نے شاید میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دی ہے۔ میرے والد فوج میں میجر تھے اور ہم تین بہنیں اور دو بھائی تھے۔ جن میں سے اب دو بہنیں اور ایک میں رہ گیا ہوں۔
زلزلے والے دن میں دفتر میں تھا کہ ماما نے مجھے فون کیا کہ ٹی وی پر بلیٹن آیا ہے کہ زلزلہ آیا ہے اور کچھ عمارتیں گری ہیں۔ اس کے بعد میں نے اپنی بہن کو فون کرنے کی کوشش کی۔ وہ دو مہینے قبل اسلام آباد شفٹ ہوئی تھی۔ اس کے شوہر ایف آئی اے میں ہیں اور کراچی سے اسلام آباد ٹرانسفر ہوکر گئے تھے۔
ہم انتہائی خدشات کا شکار تھے۔ میں جب یہاں سے بھاگا تو فلائٹ نہیں مل رہی تھی۔ کوئی چار بجے کے قریب جاکر میں اسلام آباد پہنچا۔ ساڑھے چھ بجے میرے پیچھے میری ماما پہنچیں۔ جب وہاں ہم پہنچے تو فوج نے علاقے کو اپنی نگرانی میں لے لیا تھا۔ یہ تک پتہ نہیں چل پا رہا تھا کہ کون سا بلاک گرا ہے۔
میرا چھوٹا بھائی ایبٹ آباد میں تھا اور اسے وہاں سے رسالپور جانا تھا۔ وہ ائیرفورس میں جانے والا تھا۔ میں نے اسے اطلاع دینے کی کوشش کی تو اس کا بھی پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ رات کو آٹھ بجے کے قریب احساس ہوا کہ وہ بھی لاپتہ ہے۔ اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ اپنے کسی دوست کے والد کی وفات کی تعزیت کے لئے وہ جمعرات کو بٹاگرام گیا تھا اور اسے ہفتے کو لوٹنا تھا لیکن وہ واپس نہیں لوٹا۔ دوسری طرف ہمیں اپنی بہن کے بارے میں پتہ نہیں چل رہا تھا۔
پھر معلوم ہوا کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، اسلام آباد میں لاشیں اور زخمی لائے جارہے ہیں تو ہم وہاں دوڑے۔ وہاں کوئی فہرست موجد نہیں تھی کہ کون کس کی لاش ہے۔ ان لاشوں کی حالت اتنی خراب تھی کہ ان کی شناخت کرنا انتہائی دشوار تھا۔ کچھ کے کپڑوں سے بھی اندازہ نہیں ہوپارہا تھا۔ تقریباً رات ساڑھے بارہ بجے اس کی چوڑیوں اور گلے میں پہننے والی چین سے ہمیں اندازہ ہوا کہ یہ وہی باڈی ہے جس کی ہمیں تلاش تھی۔ پھر ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ جس حالت میں یہ باڈی ملی کہ ایک بچہ اس کے ساتھ تھا جو مرنے کے وقت اس کے ساتھ ہی لگا ہوا تھا۔ یہ تقریباً گیارہ مہینے کا بچہ تھا۔ یہ اس کا پہلا بچہ تھا اور بچے کا چہرہ سلامت تھا جس سے اس کو پہچاننے میں آسانی ہوئی۔
بھائی کی ہمیں یہ بھی اطلاع ملی تھی کہ وہ صبح سحری کرکے وہاں سے نکلا تھا لیکن افسوس کہ حکومت ابھی تک کچھ نہیں کرپائی۔ باوجود اس کے کہ مجھے اس کی لاش مل گئی لیکن بٹاگرام کے اس گاؤں تک میں ابھی تک نہیں پہنچ پایا ہوں۔ رکھیلی یا رسیلی اس جگہ کا نام ہے، ابھی تک ہم اس گاؤں میں اس خاندان سے رابطہ نہیں کر پائے جہاں وہ گئے تھے۔
پہلے ہم نے بھائی کی گاڑی کے ذریعے اسے ٹریس کرنے کی کوشش کی۔ میں فوراً بھاگا، ایبٹ آباد گیا۔ ان کی گاڑی ایبٹ آباد نمبر کی تھی اور اس سے دولاشیں پنڈی سی ایم ایچ میں آئی تھیں۔ ان میں سے ایک کو بھائی کے دوست کے طور پر شناخت کرلیا گیا تھا۔ میری ماما نے مجھے کال کیا۔ میں واپس پنڈی دوڑا اور جس کی لاش شناخت ہوئی تھی اس کی فیملی سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ دو باڈیز مل گئی ہیں۔ گاڑی بھی مل گئی ہے اور باقی دو باڈیز کی تلاش ابھی جاری ہے۔ وہ شاید بلا کوٹ سے پہلے کاغان اور ناران کے درمیاجن والی سڑک پر راستے میں تھے جب لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے کوئی چٹان یا پتھر گاڑی کو لگا اور وہ گاڑی نیچے وادی میں جاگری۔ گاڑی کے اندر کی دو باڈیز مل گئیں۔ بعد جب ملٹری نے اس راستے کو کھولا تو مٹی میں سے بہت سی باڈیز ملیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے خود دیکھا کہ وہاں وہ حالت تھی کہ بتانے سے قاصر ہیں۔ لوگ مٹی میں دبے تھے اور کسی کا کوئی احترام نہ تھا۔ کسی کا ہاتھ نظر آرہا ہے، کسی کا جوتا نظر آرہا ہے اور کسی کی قمیض۔ یوں میں یہ باڈی لے کر اسلام آباد پہنچا۔
وہاں لوگوں نے بتایا کہ یہ لوگ ایک چھوٹے سے قافلے کی شکل میں تھے جس میں ایک منی وین، دو ڈاٹسن کاریں تھیں اور یہ لوگ پوٹھوہار جیپ میں تھے۔ یہ کاغان ویلی سے بالا کوٹ کے لیے آرہے تھے۔ وہاں جو میں نے تھوڑی بہت تفتیش کی تو یہ واحد گاڑی تھی جو یوں لگ رہا تھا کہ کسی نے اٹھا کر پھینک دی ہے۔ باقی سب گاڑیاں ابھی تک مٹی میں دبی ہوئی تھیں۔ اس میں سے یہ دو کیسے نکلے، آیا یہ زخمی تھے کیونکہ وہاں مقامی لوگوں نے بتایا کہ جب لوگوں نے انہیں نکالا تو ایک بندے کی سانس چل رہی تھی۔ وہاں ایک لڑکا فیض تھا جس کا پورا خادان ہلاک ہوگیا تھا، اس نے میرے بھائی کو پی ایف اکیڈیمی کے کارڈ سے پہچانا اور پھر فون کئے۔
وہاں امدادی کاروائیوں کی حالت بہت خراب تھی۔ بالا کوٹ اور مظفرآباد میں بہت رش تھا۔
یقین کیجئے میں پچھلے دو دن مظفرآباد میں گزار کے آیا ہوں۔ نیلم ویلی اور اس سے اوپر کے علاقوں کے جو حالات ہیں وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ خود مظفراْاد میں ایسی موت کی بدبو ہے کہ جو مجبوری میں کھڑا ہے وہ تو کھڑا ہے لیکن مجھ جیسے آدمی کا کھڑا ہونا بہت مشکل تھا۔ فوج بھی جارہی ہے لیکن کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کچھ نہیں پہنچا۔ انتہائی شدید سردی ہے۔
آپ یقین کریں کہ ہمیں وہاں ایک بچہ ملا جس کے جسم پر کوئی کپڑا نہیں تھا۔ وہ سڑک کے کنارے بیٹھا تھا، میرے ساتھ میرے دوست اور کزنز تھے، انہوں نے کہا دیکھو، یہ بچہ ہے، میں نے کہا نہیں کوئی چٹان گری پڑی ہے۔ ہم نے گاڑی روکی تو وہ بچہ بخار سے تپ رہا تھا۔ وہ تین چار سال کا بچہ تھا کچھ بتا نہیں سکتا تھا، صرف اس کی آنکھیں ایک طرف تھیں، دیکھا تو اوپر کچھ بلندی پر ایک گھر تھا، وہاں پہنچے تو پورا گھر تباہ ہوچکا تھا۔ جب اس بچے کو فوجی ہسپتال میں پہنچایا تو انہوں نے کہا کہ اس کا نمونیہ آخری سٹیج پر ہے، خدا کرے یہ بچہ بچ جائے۔
بہت بری حالت ہے، میں کراچی آگیا ہوں اور کل اپنی ٹیم لے کر جا رہا ہوں لیکن میں اتنا کہوں گا کہ میڈیا جو کچھ دکھا رہا ہے، وہ پچیس فیصد بھی نہیں جو ہوا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی وجہ کیا ہے لیکن خدا کے لئے وہاں جائیں جو بڑے شہر نہیں ہیں۔ میڈیا وہاں پہنچ سکتا ہے۔ وہاں مت جائیں جہاں صدر جاتے ہیں۔