. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Saturday, July 30, 2005

ایک گذارش

میں اردو وکی پر اپنے تبصرہ کو سب کے علم میں لانے کے لئے یہاں نقل کر رہا ہوں ۔ اتنی محنت کر کے اردو کے بلاگ بنائے گئے ہیں ۔ ان محنتی لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بلاگنگ اردو میں کی جائے ۔ اس لئے میری انگریزی کے ماہرین سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ اردو بلاگز پر اردو میں لکھا کریں ۔ اردو نہیں آتی تو سیکھ لیں ۔ کوئی ہرج نہیں ہو گا ۔
میں جب بھی ملک سے باہر گیا مجھے غیرملکیوں کا ایک سوال پریشان کرتا تھا ۔ کیا پاکستان میں انگریزی بولی جاتی ہے ؟ میں کہتا کہ وہ آپ کے ساتھ انگریزی بولتے ہیں تو جواب ملتا نہیں وہ آپس میں بھی انگریزی بولتے ہیں ۔ کیا ہماری کوئی پہچان بطور پاکستانی ہے ؟

Friday, July 29, 2005

۔ پاکستان کے کمانڈر انچیف نے حکم عدولی کی ۔ JK8

جب بھارت نے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947 کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔

بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے آگے بڑھنے لگے ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے جموں کشمیر پہنچنا شروع ہوگئے ۔ کئی پاکستانی فوجی چھٹیاں لے کر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ پھر اللہ کی نصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں جن کو برطانوی ایئر فورس کی امداد بھی حاصل تھی پسپا ہوتے گئے یہاں تک کہ مجاہدین کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے ۔

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی ۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا ۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ قراردادیں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کیجئے ۔

مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

Tuesday, July 26, 2005

اقبال دہشت گرد تھا ؟

علّامہ محمد اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو ان کی تمام تصانیف ضبط کر لی جاتیں اور ان کا نام خطرناک دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ۔ ملاحظہ کے لئے چند شعر حاضر ہیں ۔

تیری دوا جنیوا میں ہے نہ لندن میں
فرنگ کی رگ جا پنجہۂ یہود میں ہے
سنا ہے میں نے غلامی سے امّتوں کی نجات
خودی کی پروش و لذّت نمود میں ہے
۔ ۔ ۔ ۔
ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
۔ ۔ ۔ ۔
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملّا کو اس کے کوہ و دمن سے نکال دو
۔ ۔ ۔ ۔
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے کون اس سے کہ مسلماں کی موت مر
تعلیم اس کو چاہیئے ترک جہاد کی
دنیا کو جس کے پنجہء خونی سے ہو خطر

Monday, July 25, 2005

Accept Carpet of Gold, or We Bury You Under Carpet of Bombs

میں نے اپنی 10 جولائی کی پوسٹ میں امریکہ کے افغانستان پر حملہ کی ایک وجہ یہ بتائی تھی کہ طالبان نے پائپ لائن کا ٹھیکہ امریکہ کو نہیں دیا تھا ۔ شعیب ڈے والے شعیب صاحب نے اس کو بالکل نئی معلومات کہا تھا اور میرے بیٹے نے بھی صحافی کا نام پوچھا تھا ۔ میں نے اللہ سبحانہ و تعالی کے عطا کردہ حافظہ سے لکھا تھا اور سر دست میرے پاس حوالا موجود نہ تھا ۔ میں جموں کشمیر کی تحریک آزادی کی تاریخ کی کھوج میں سرگرداں تھا اور ابھی فارغ نہیں ہو سکا ۔ اس لئے اس بارے کچھ نہ کر سکا ۔ میں مشکور ہوں جہانزیب اشرف صاحب کا کہ انہوں نے حوالے مہیا کئے ہیں جو میں درج کر رہا ہوں ۔
The Afghan Pipeline Project
In 1997 the Taliban signed a £2 billion contract with an American oil company led consortium to build a 876 mile gas pipeline from Turkmenistan to Pakistan across Afghanistan. It was Unocal, a Houston based company, that did the bidding and hosted the Taliban delegation in Texas. The consortium to do this was called the Central Asia Gas Pipeline Project. UNOCAL had a controlling interest of 46.5% but aborted the project in December 1998

The Bush administration and the pipeline project
According to a recent book, published in France, the pipelines across Afghanistan agenda was taken up again immediately George Bush came to power in the USA in February of this year (2001). The Bush administration brought a strong oil interest into control in the White House. Apart from Bush himself, Vice President Dick Cheney, the director of the National Security Council Condoleezza Rice, the Ministers of Commerce and Energy, Donald Evans and Stanley Abraham, have all worked for a long time for U.S. oil companies. In fact between them they have a variety of personal interests in these oil projects. In their book ''Bin Laden, la verite interdite'' (''Bin Laden, the forbidden truth''), authors, Jean-Charles Brisard and Guillaume Dasquie, reveal that the Federal Bureau of Investigation's deputy director John O'Neill resigned in July 2001 in protest over the obstruction of the FBI investigation into bin Laden. The obstruction was by the oil interests who dominate the government because they wanted to negotiate with the Taliban. Until August, the U.S. government saw the Taliban regime ''as a source of stability in Central Asia that would enable the construction of an oil pipeline across Central Asia'', from the rich oilfields in Turkmenistan, Uzbekistan, and Kazakhstan, through Afghanistan and Pakistan, to the Indian Ocean. Until that time, says the book, ''the oil and gas reserves of Central Asia have been controlled by Russia. The Bush government wanted to change all that''. Confronted with Taliban's refusal to accept U.S. conditions, ''this rationale of energy security changed into a military one'', the authors claim. 'At one moment during the negotiations, the U.S. representatives told the Taliban, 'either you accept our offer of a carpet of gold, or we bury you under a carpet of bombs','' Brisard said in an interview in Paris. Please note this was before the attack on the World Trade Centre.

What Congress Does Not Know about Enron and 9/11
http://www.john-loftus.com/enron3.asp
A captured Al Qaida document reveals that US energy companies were secretly negotiating with the Taliban to build a pipeline. The Al Qaida document tends to support recent claims of a cover-up made by several mid-level intelligence and law enforcement figures. Their ongoing terrorist investigations appear to have been hindered during the same sensitive time period while the Enron Corporation was still negotiating with the Taliban.

The Enron pipeline connection to 9/11
The email report, written by Al Qaida's head of military operations, Mohammd Atef, describes Al Qaida's view of ongoing secret pipeline negotiations between the US oil companies and the Taliban to build a pipeline through Afghanistan. This Atef report was almost certainly reviewed by the late John O'Neill at the time of the Embassy bombing, shortly after the Al Qaida report was written. At the time, O'Neill was the FBI agent in charge of the Embassy bombing investigation. The shocking pipeline information may explain why O'Neill became fixated about the Saudi-Taliban-Al Qaida relationship for the few remaining years of his life.

BBC NEWS: Afghanistan plans gas pipeline
Monday, 13 May, 2002, 10:20 GMT 11:20 UK
Afghanistan hopes to strike a deal later this month to build a $2bn pipeline through the country to take gas from energy-rich Turkmenistan to Pakistan and India. Afghan interim ruler Hamid Karzai is to hold talks with his Pakistani and Turkmenistan counterparts later this month on Afghanistan's biggest foreign investment project, said Mohammad Alim Razim, minister for Mines and Industries told Reuters. "The work on the project will start after an agreement is expected to be struck at the coming summit," Mr Razim said.

The construction of the 850-kilometre pipeline had been previously discussed between Afghanistan's former Taliban regime, US oil company Unocal and Bridas of Argentina.

Saturday, July 23, 2005

جمعہ کوگرفتار کئے گئے دہشت گردوں کی تفصیل

جس نے بھی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھی ہے وہ جانتا ہے کہ پہلے لاؤڈسپیکر پر اذان ہوتی ہے اس کے بعد خطیب واعظ کرتا ہے جس میں تعلیم یافتہ خطیب عام طور پر قرآن کی تفسیر بیان کرتے ہیں اور انسانی مسائل کا ذکر بھی ہوتا ہے ۔ پھر عربی میں خطبہ ہوتا ہے اور پھر نماز ۔ سب یہ بھی جانتے ہیں کہ اذان اگر لاؤڈ سپیکر کے بغیر دی جائے تو مسجد کے باہر سنی نہیں جا سکتی ۔

ہماری خوشحال اور روشن خیال حکومت نے تین ایمپلی فائر ایکٹ پاس کیا ہوا ہے جس کے تحت مساجد میں صرف نماز ، اذان اور عربی میں جمعہ کے خطبہ کی اجازت ہے باقی سب غیر قانونی ہے ۔ اور لاؤڈ سپیکر کا استعمال بھی غیر قانونی ہے ۔ چنانچہ پچھلے جمعہ اس قانون کی سخت پابندی کا حکم اسلام آباد کی تمام مسجدوں کے خطیبوں کو دیا گیا ۔

پاکستان میں جمعہ کو جو دہشت گرد حکومت نے پکڑے ان کی تفصیل بی بی سی کی زبانی
پنجاب پولیس نے جمعے کے روز سینکڑوں امام مساجد اور خطیبوں کے خلاف مقدمات درج کیے تھے اور جنوبی پنجاب سے سوا سو کے قریب افراد کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
پاکستانی صدر پرویز مشرف نے ایک روز پہلے ہی انتہا پسندی سے سختی سے نمٹنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ مسجدوں سے نفرت انگیز تقاریر کی اجازت نہیں دی جاۓ گی۔
لاہور پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ جمعہ کی صبح ہی انہیں ہدایات مل گئی تھیں کہ صوبے میں پہلے سے نافذ تین ایمپلی فائر ایکٹ کی ہر صورت میں پابندی کروائی جاۓ۔
پولیس کے سادہ پوش اور باوردی اہلکار نماز جمعہ کے اجتماعات میں نگرانی کے لیے پہنچ گئے تھے بعد میں انہی کی تحریری رپورٹوں پر مقدمات درج ہوۓ ہیں۔
لاہور پولیس کے ایک ترجمان کے مطابق شہر کی مختلف مساجد کے امام اور خطیبوں کے خلاف چھپن مقدمات درج کیے گئے

Friday, July 22, 2005

Blair Caught Behind the Wicket

British boy wrongly labelled as London bomber
Dawn Monitor
AN INTERVIEW of a British teenager broadcast on a Pakistani television network has thrown into doubt investigators’ claims that all the three London bombers of Pakistani descent visited Pakistan last year. According to the investigators, the three bombers had died in the July 7 attacks.
But 16-year-old Hasib Hussain, a namesake of one of the putative bombers and of Pakistani descent, said in the interview that a photograph of a passport purporting to show bomber Hasib Hussain, 19, was his, and not that of the ‘bomber’. The photo, together with documents showing that Hasib and two other bombers visited Pakistan last year, was published in newspapers on Monday. “I first saw my photograph on Channel 4 [British TV network) and I was terrified,” Hasib Hussain, the teenager said in the interview with the ARY network on Thursday. “I didn’t want people looking at me saying ‘hey, you are supposed to be dead’,” he said, “or someone saying that there goes the London bomber.”
On Monday, Pakistan’s Federal Investigation Agency (FIA) said Hasib Hussain, carrying a British passport, had arrived in Karachi from Riyadh on July 15 last year. The father of Hasib (the interviewee) said that the family had indeed visited Karachi last year. He urged the British and Pakistani authorities to clear up the confusion. An FIA official told the BBC: “We have nothing to say on the matter at this stage.” —BBC

Thursday, July 21, 2005

۔ قراداد الحاق پاکستان ۔ مسلح تحریک آزادی ۔ برطانوی فضائیہ کے حملے JK7

مسلم کانفرنس کے لیڈروں نے باؤنڈری کمیشن کی ایماء پر دیئے گئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ریاستوں کے متعلق فیصلہ میں چھپی عیّاری کو بھانپ لیا ۔ اس وقت مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس جیل میں تھے ۔ چنانچہ قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ نے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا جس نے یہ قرار داد منظور کر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھیجی کہ اگر مہاراجہ نے تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ نہ کیا تو مسلمان مسلح تحریک آزادی شروع کر دیں گے ۔

جب جیل میں چوہدری غلام عباس کو اس کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے ۔ انہوں نے ہدائت کی کہ مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس بلا کر قرارداد الحاق پاکستان پیش کی جائے ۔ چنانچہ 19 جولائی 1947 کو جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ 3 جون 1947 کے باؤنڈری کمیشن کے اعلان سے خود مختار ریاستوں کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے لہذا جموں کشمیر کی سواد اعظم اور واحد پارلیمانی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جغرافیائی ۔ اقتصادی ۔ ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا ناگزیر ہے لہذا یہ اجلاس یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ داخلی معاملات ریاست کے عوام ایک منتخب حکومت کے ذریعہ چلائیں گے جب کہ دفاع ۔ خارجی امور اور کرنسی پاکستان کے ماتحت ہوں گے ۔

مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے کسی قسم کا جواب نہ ملنے پر جس مسلح تحریک کا نوٹس مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے مہاراجہ ہری سنگھ کو دیا تھا وہ 23 اگست 1947 کو نیلا بٹ سے شروع ہوئی اور ستمبر میں گلگت اور بلتستان میں پروان چڑھی ۔ مختصر یہ کہ میجر حسن خان یکم ستمبر 1947 کو جب کشمیر سےاپنی رائفل کمپنی کے ساتھ بونجی (گلگت) کی طرف روانہ ہوا تو اس نے بآواز بلند پاکستان کا نعرہ لگایا اور پوری کمپنی نے بآواز بلند زندہ باد کہا ۔ یہ کمپنی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتی اور باقی لوگوں کو ساتھ ملاتی بونجی پہنچی ۔ یہ گلگت اور بلتستان کا پاکستان سے الحاق کا اعلان تھا ۔ میجر حسن خان نے یکم نومبر 1947 تک گلگت اور بلتستان میں اپنی آزاد حکومت قائم کر کے قائد اعظم کو مطلع کیا جس کے نتیجہ میں پندرہ دن بعد پاکستان کے نمائندہ سردار عالم نے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر عنان حکومت سنبھال لیا تھا ۔

جمعہ 24 اکتوبر 1947 کو جس دن سعودی عرب میں حج تھا مسلح تحریک آزادی پونچھ سے بھی باقاعدہ شروع ہو کر مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبرتک پھیل گئی ۔ یہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے چوتھی مگر پہلی مسلح تحریک آزادی تھی ۔ ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ پہلے تو صرف مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا مگر اکتوبر کے آخر میں بڑی تعداد میں بھارتی فوج بھی پہنچ گئی اور ہندوستان کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔

اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمان دوسری جنگ عظیم میں یا اس کے بعد برطانوی یا مہاراجہ کی فوج میں رہ چکے تھے اور جنگ کے فن سے واقف تھے البتہ ان کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ توپیں وغیرہ کچھ نہ تھا جبکہ مقابلہ میں بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

Sunday, July 17, 2005

۔ شیخ عبداللہ کانگرس کے نرغے میں اور ماؤنٹ بیٹن کی عیّاری JK6

قائداعظم محمد علی جناح کے تجربہ سے سبق نہ سیکھتے ہوئے 1939 میں شیخ عبداللہ اپنے دوست پنڈت جواہر لال نہرو کے جھانسے میں آ گیا اور مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں بدل دیا ۔ شیخ عبداللہ کو 13 جولائی 1931 کو کہے ہوئے ایک شہید کے آخری الفاظ بھی یاد نہ رہے کہ ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں ۔

شیخ عبداللہ سے مایوس ہو کر 1941 میں چوہدری غلام عباس اور دوسرے مخلص مسلمانوں نے مسلم کانفرنس کو بحال کیا تو تقریبا سب مسلمان اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے ۔ اس وقت اعلان کیا گیا کہ ریاست کی تحریک آزادی دراصل تحریک پاکستان کا حصہ ہے ۔ اس تحریک کو میرے دادا جان کی مالی امداد اور اخلاقی اعانت حاصل تھی ۔

قائد اعظم محمد علی جناح مئی 1944 میں جموں کشمیر گئے اور دو ماہ وہاں قیام کیا جس کے دوران وہاں کے سیاستدانوں بشمول شیخ عبداللہ اور دانشوروں سے ملاقاتیں کیں ۔ 26 جون کو سرینگر میں منعقدہ مسلم کانفرنس کے سلانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کہ مسلمان اپنی قومی جماعت مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے اپنی تحریک جاری رکھیں اور چوہدری غلام عباس کو مخاطب کر کے کہا ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہیں ۔

وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947 کو نیم خود مختار ریاستوں کے متعلق یہ فیصلہ دیا کہ وہاں کے حاکم جغرافیائی اور آبادی کی اکثریت کے لحاظ سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتی ہیں ۔ یہ فیصلہ مبہم تھا اور بھارت اپنی طاقت کے بل بوتے پر بھارت کے اندر یا بھارت کی سرحد پر واقع تمام ریاستوں پر قبضہ کر سکتا تھا اور ہوا بھی ایسے ہی ۔ بھارت نے فوجی طاقت استعمال کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرنے والی ریاستوں یعنی حیدر آباد دکن ۔گجرات کاٹھیا واڑ اور مناوادور پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ۔ وجہ یہ بتائی کہ وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے ۔ مگر مسلم اکثریت والی ریاستوں کپورتھلہ اور جموں کشمیر پر بھی فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا ۔
باقی انشاءاللہ آئیندہ

Saturday, July 16, 2005

Pakistan First From Bottom

Pakistan ranked last out of 14 countries in Asia-Pacific in an investigation into developing countries’ commitment to basic education according to a report prepared jointly by the Asian South Pacific Bureau of Adult Education and the Global Campaign for Education.

Countries were graded and ranked based on their performance on: Complete basic education; state action on free education; quality inputs; gender equality and overall equity — to depict their commitment to basic education.
2 out of 3 Pakistani adults are illiterate, with the same proportion of secondary school age children out of school; 4 out of 10 children are missing primary school; girls and women constitute majority of those who are denied access to complete basic education.
Remarks’ section for President General Pervez Musharraf reads, “Pervez spends less per pupil than most of his South Asian neighbours and charges user fees in full. The ‘Teacher’s such low spending can only deliver pitiable results. In all aspects, there is clearly little quality and state action and commitment in the public education Pervez offers, given the spending and the charges. This puts him at the bottom of the class too.

The report also states: 45.3 % have no access to early childhood care and education; 40.3 % to primary school, and 76.1 % to secondary school. The level of adult illiteracy in Pakistan, at 58.9 % is, 1 of the 3 highest among the 14 countries ranked in the report.
On the scale of 14, Thailand is 1st. 2nd is Malaysia, 3rd Sri Lanka, 4th Philippines, 5th China, 6th Vietnam, 7th Bangladesh, 8th Cambodia, 9th India, 10th Indonesia, 11th Nepal, 12th Papua New Guinea, 13th Solomon Islands and Pakistan is 14th.

To read the complete news click on the title.

Thursday, July 14, 2005

۔ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی تحریک آزادی JK5

سکھ حکمرانوں نے مسلمانوں پر ناجائز ٹیکس لگائے جس کے نتیجہ میں جموں کشمیر میں آزادی کی پہلی تحریک نے جنم لیا ۔ یہ تحریک 1832 میں شروع ہوئی اور سکھ حکومت کے جبر و استبداد کے باوجود 1846 تک جاری رہی جب انگریزوں نے سکھوں کو شکست دے کر ان کی سلطنت پر قبضہ کر لیا ۔ انگریزوں نے باقی علاقہ تو اپنے پاس رکھا مگر جموں کشمیر کو پچھتر لاکھ یعنی ساڑھے سات ملین نانک شاہی سکوں کے عوض اپنے خاص خیرخواہ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ بیچ دیا اور اسے جموں کشمیر کا خودمختار مہاراجہ بھی تسلیم کر لیا ۔ اس فیصلہ کے خلاف مسلمانوں نے آزادی کی دوسری تحریک شروع کی جس کو کچلنے کے لئے گلاب سنگھ نے انگریزوں سے مدد مانگی اور اس تحریک کو سختی سے دبا دیا گیا ۔

ان دنوں لدّاخ چینیوں کے زیر انتظام تھا ۔ گلاب سنگھ نے لشکر کشی کر کے اسے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ 1857 میں گلاب سنگھ کے مرنے کے بعد رنبیرسنگھ نے 1885 تک حکومت کی ۔ اس کے بعد پرتاب سنگھ 1925 تک حکمران رہا اور ہری سنگھ 1949 تک ۔

ڈوگرہ مہاراجوں کا دور جابرانہ اورھ ظالمانہ تھا ۔ نہ تحریر و تقریر کی آزادی تھی نہ مذہبی اور سماجی سرگرمیوں کی ۔ مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے تو انتہا کر دی ۔ اونچی آواز میں اذان اور جمعہ اور عیدین کے خطبہ پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ اس پر پوری ریاست میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ بزرگوں نے جوان قیادت کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ۔ اتفاق رائے کے ساتھ جموں سے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان (ہمارے خاندان سے) ۔ شیخ حمید اللہ وغیرہ اور کشمیر سے شیخ محمد عبداللہ ۔ یوسف شاہ (موجودہ میر واعظ عمر فارو‍ق کے دادا) ۔ غلام نبی گلکار وغیرہ کو چنا گیا ۔ 26 جون 1931 کو سرینگر کی مسجد شاہ ہمدان میں جموں کشمیر کی تاریخ کا بڑا جلسہ ہوا جس میں پچاس ہزار مسلمانوں نے شرکت کی ۔

جب لیڈر حضرات آپس میں مشورہ کر رہے تھے ایک شخص جسے کوئی نہیں پہچانتا تھا نے اچانک سٹیج پر چڑھ کر بڑی ولولہ انگیز تقریر شروع‏ کر دی ۔اور آخر میں کہا مسلمانوں اشتہاروں اور جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا اٹھو اور مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو ۔ اس شخص کا نام عبدالقدیر تھا وہ امروہہ کا رہنے والا تھا جو یوپی ہندوستان میں واقع ہے اور ایک انگریز سیاح کے ساتھ سرینگر آیا ہوا تھا ۔ اسے گرفتار کر لیا گیا ۔

13 جولائی 1931 کو عبدالقدیر کے خلاف مقدمہ کی سماعت سرینگر سینٹرل جیل میں ہو رہی تھی ۔ مسلمانوں کو خیال ہوا کہ باہر سے آیا ہوا ہمارا مسلمان بھائی ہماری وجہ سے گرفتار ہوا ہے ۔ سات ہزار کے قریب مسلمان جیل کے باہر جمع ہوگئے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں مقدمہ کی کاروائی دیکھنے دی جائے ۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی اجازت نہ دی جس پر تکرار ہو گئی اور ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ دیئے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا ۔ بائیس مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ شہید ہونے والے ایک شخص نے شیخ عبداللہ سے کہا ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں ۔

اسی شام جموں کے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان ۔ مولوی عبدالرحیم اور شیخ یعقوب علی اور کشمیر کے شیخ محمد عبداللہ اور خواجہ غلام نبی گلکار کو گرفتار کر لیا گیا ۔ اس پر غلامی کا طوق جھٹک دینے کے لئے جموں سے ایک زور دار تحریک اٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932 میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934 میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934 ۔ 1938 ۔ 1939 اور 1947 میں اس اسمبلی کے الیکشن ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس نے 80 فیصد یا زائد نشستیں جیتیں ۔

Wednesday, July 13, 2005

گھوٹکی کے قریب تین ٹرینیں ٹکرا گئیں

آج صبح صوبہ سندھ کے شہرگھوٹکی کے قریب تین ریل گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئی ہیں جس کے نتیجے کم از کم تین سو افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ زخمیوں کی تعداد تین ہزار بتائی جا رہی ہے ۔ ریلوے حکام کے مطابق کل سترہ بوگیاں متاثر ہوئی ہیں ۔ ٹریفک کنٹرولر کے مطابق حادثے میں تیزگام ایکسپریس کی بارہ بوگیاں، کوئٹہ ایکسپریس کی چار اور نائٹ کوچ کی تین بوگیاں پٹڑی سے اتر کر الٹ گئی ہیں۔

لاہور سے کراچی جانے والی کوئٹہ ایکسپریس میں گھوٹکی کے قریب سرحد ریلوے اسٹیشن پر مرمت کے لیے روکا گیا تھا۔ پیچھے سے آنے والی نائٹ کوچ (کراچی ایکسپریس) کوئی صبح ساڑھے چار بجے کے قریب اس سے جا ٹکرائی۔ اتفاق سے اسی وقت دوسرے ٹریک پر کراچی سے لاہور جانے والی تیزگام ایکسپریس گزر رہی تھی ۔ نائٹ کوچ کھڑی کوئٹہ ایکسپریس سے ٹکرا کر پٹڑی سے اتر گئی اور سامنے سے آنے والی تیزگام ایکسپریس سے ٹکرا گئی۔

ریلوے کے سکھر ڈویژن کےٹریفک کنٹرولر محمد اشرف لنجار کے مطابق حادثہ نائٹ کوچ کے ڈرائیور کی غفلت سے پیش آیا کیونکہ سگنل دیے جانے کے بعد باوجود اس نے ٹرین سرحد ریلوے اسٹیشن سے پہلے نہ روکی اور کوئٹہ ایکسپریس سے آ ٹکرایا۔

Tuesday, July 12, 2005

A Letter to the British People from a daughter of Iraq

This is copied from an e-mail. It raises some questions, answers for which I do not have.

Iman al-Saadun Friday, 8 July 2005
I'm sending this letter to the British people and in particular to the residents of London. For a period of hours, you have lived through moments of desperate anxiety and horror. In those hours you lost a member of your family or a friend, and we wish to tell you in total honesty that we too grieve when human lives pass away. I cannot tell you how much we hurt when we see desperation and pain on the face of another person. For we have lived through this situation - and continue to live through it every day - since your country and the United States formed an alliance and laid plans to attack Iraq. The Prime Minister of your country, Tony Blair, said that those who carried out the explosions did so in the name of Islam. The Secretary of State of the United States, Condaleezza Rice, described the bombings as an act of barbarism. The United Nations Security Council met and unanimously condemned the event. I would like to ask you, the free British people, to allow me to inquire: in whose name was our country blockaded for 12 years? In whose name were our cities bombed using internationally prohibited weapons? In whose name did the British army kill Iraqis and torture them? Was that in your name? Or in the name of religion? Or humanity? Or freedom? Or democracy? What do you call the killing of more than two million children? What do you call the pollution of the soil and the water with depleted uranium and other lethal substances? What do you call what happened in the prisons in Iraq - in Abu Ghraib, Camp Bucca and the many other prison camps? What do you call the torture of men, women, and children? What do you call tying bombs to the bodies of prisoners and blowing them apart? What do you call the refinement of methods of torture for use on Iraqi prisoners - such as pulling off limbs, gouging out eyes, putting out cigarettes on their skin, and using cigarette lighters to set fire to the hair on their heads? Does the word "barbaric" adequately describe the behavior of your troops in Iraq? May we ask why the Security Council did not condemn the massacre in al-Amiriyah and what happened in al-Fallujah, Tal'afar, Sadr City, and an-Najaf? Why does the world watch as our people are killed and tortured and not condemn the crimes being committed against us? Are you human beings and we something less? Do you think that only you can feel pain and we can't? In fact it is we who are most aware of how intense is the pain of the mother who has lost her child, or the father who has lost his family. We know very well how painful it is to lose those you love. You don't know our martyrs, but we know them. You don't remember them, but we remember them. You don't cry over them, but we cry over them. Have you heard the name of the little girl Hannan Salih Matrud? Or of the boy Ahmad Jabir Karim? Or Sa'id Shabram? Yes, our dead have names too. They have faces and stories and memories. There was a time when they were among us, laughing and playing. They had dreams, just as you have. They had a tomorrow awaiting them. But today they sleep among us with no tomorrow on which to wake. We don't hate the British people or the peoples of the world. This war was imposed upon us, but we are now fighting it in defense of our selves. Because we want to live in our homeland - the free land of Iraq - and to live as we want to live, not as your government or the American government wish. Let the families of those killed know that responsibility for the Thursday morning London bombings lies with Tony Blair and his policies.

Sunday, July 10, 2005

ضرورت ایک سنجیدہ سوچ کی

آئیے پہلے ہم لندن میں حالیہ بم دھماکوں کی پر زور مذمت کریں جس سے ستاون بے قصور انسان ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔
اب ذرا اپنے دماغ پر پوری سنجیدگی سے زور دے کر ان انسان دشمنوں کی کھوج لگائیں جنہوں نے یہ اندوہناک واقعہ کیا ۔

اول ۔ ہم سب نے لفظ قاعدہ تو سنا ہوا تھا یعنی اردو کا قاعدہ اور مثلث کا قاعدہ مگر لفظ القاعدہ پہلی بار چار سال قبل 9 ستمبر کے بعد امریکی حکومت سے سنا اور پھر امریکہ کے حواریوں نے بھی اسے اپنا لیا ۔

دوم ۔ سال 2001 کے آخر یا 2002 کے شروع میں ایک صحافی نے جو افغانستان میں کافی عرصہ رہا تھا لکھا کہ 2001 میں تیل اور گیس پائپ بچھانے کے سلسلہ میں امریکن سی آئی اے کی ٹیم ملا عمر اور اوسامہ بن لادن سے کئی ماہ مذاکرات کرتی رہی ۔ ان کی کوشش تھی کہ پائپ بچھانے کا ٹھیکہ امریکن کمپنی کو دیا جائے مگر ملا عمر نے ارجنٹائین کی کمپنی کے حق میں فیصلہ دیا اس پر امریکی ٹیم ملا عمر کو دھمکی دے کر کہ اس کے اچھے نتائج نہیں ہونگے اگست 2001 میں واپس چلی گئی ۔ اس صحافی کے مطابق جب امریکی ٹیم والے افغانوں سے پوچھتے کہ ملا عمر یا اوسامہ کہاں ہے تو وہ جواب دیتے ۔ القاعدہ ۔
دراصل عربی میں القاعدہ وہی ہوتا ہے جو انگریزی میں بیس ۔ ایئر بیس ہو یا آرمی بیس یا کوہ پیماؤں کا بیس کیمپ یا کسی سیاسی جماعت کا کیمپ ۔ ان سب کو القاعدہ کہا جاتا ہے ۔

سوم ۔ افغانستان میں طالبان ہوں یا عراق میں عراقی ذرا ان کے حملوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حملے یا تو امریکی فوجیوں یا ان کے حواریوں پر کئے گئے ۔ جو بھی شخص اغواء کیا گیا اور وہ صرف روزی کمانے والا پایا گیا اسے چھوڑ دیا گیا ۔ ایک آدھ غلط واقعات ہوئے ۔ لیکن امریکیوں نے ان سے زیادہ بار اپنے ہی فوجیوں کو مارا ۔

چہارم ۔ لندن کے واقعہ میں مرنے والے عام لوگ تھے ان میں مسلمان بھی ہو سکتے ہیں اور نام نہاد القاعدہ کے ہمدرد بھی ۔

پنجم ۔ لندن کے واقعہ کا فائدہ امریکہ کو اس طرح پہنچتا ہے کہ برطانیہ کی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ وہ رویّہ نہیں اپنایا جو امریکی حکومت نے اپنا رکھا ہے اور برطانیہ اب امریکی حکومت کی نام نہاد وار اگینسٹ ٹیرر سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہا تھا ۔

ششم ۔ ورڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز گرانے کا الزام امریکی حکومت نے جن لوگوں پر لگایا اس کا کوئی واضح ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہی ۔

ہفتم ۔ دو باتیں آج تک کم از کم میری سمجھ میں نہیں آئیں ۔
ایک کہ فلائینگ کی معمولی تربیت کے بعد کوئی شخص اتنا اچھا نشانہ کیسے لے سکتا ہے ۔ میرے عزیز و اقارب میں کئی لوگ پائلٹ ہیں یا رہے ہیں ایئر فورس میں اور کمرشل پائلٹ بھی ۔ ان کا خیال ہے کہ اس کام کے لئے کم از تین سال کی تربیت کے بعد کم از کم پانچ سال کا تجربہ ہونا چاہیئے ۔
دوسری کہ ایک ہوائی جہاز نے اغواء ہونے کے 20 منٹ بعد ٹاور کو ٹکر ماری اور دوسرے نے 38 منٹ بعد ۔ اتنا وقت امریکی سکیورٹی فورسز کہاں تھیں ؟

ہشتم ۔ آج کل شارٹ کٹ بہت رواج پا چکا ہے ۔ مغربی دنیا میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے نوجوان اسلام کی روح سے ناواقف ایزی منی اور ایزی سال ویشن کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ان کا ایسے کام میں ملوّث ہونا قرین قیاس ہو سکتا ہے
۔

Saturday, July 09, 2005

۔ تاریخی پس منظر JK4

اپنے ہم وطنوں کا حال یہ ہے کہ تاریخ تو کیا ہمیں کل کی بات بھی یاد نہیں رہتی ۔ ہم بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وصلعم کا فرمان ہے کہ مسلمان ایک سوراخ سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا ۔ ہماری حکومتوں کو توفیق نہیں ہوئی کہ یونیورسٹیوں کے پروفیسروں کی تحقیقی کمیٹی بنا دیتے جو سچے واقعات کی تاریخ مرتب کر دیتے ۔ اس لئے جموں کشمیر کی جدوجہد آزادی کے واقعات لکھنے سے پہلے تھوڑا سا تاریخی حوالہ ضروری ہے ۔ ضیاءالحق کے زمانہ میں تھوڑا سا کام ہوا تھا کہ چھبیس موٹی جلدوں پر محیط دائرہ معارف اسلامیہ یعنی اردو انسائیکلوپیڈیا آف اسلام لکھی گئی اور کتاب الفقہ اور قرآن شریف کی کچھ تفاسیر کے عربی سے اردو میں تراجم ہوئے ۔

تاریخی پس منظر
تین بڑے دریا سندھ ۔ جہلم اور چناب جموں کشمیر سے بہہ کر پاکستان میں آتے ہیں ۔ اس کے علاوہ کئی چھوٹے دریا بھی ہیں جن میں نیلم ۔ کشن گنگا اور توی قابل ذکر ہیں ۔ جموں کشمیر کے شمالی پہاڑوں میں مندرجہ ذیل دنیا کی انتہائی بلند چوٹیوں میں سے ہیں ۔ کے ٹو 8611 میٹر ۔ نانگا پربت 8125 میٹر ۔ گاشربرم اول 8068 میٹر ۔ چوڑی چوٹی 8047 ۔ گاشربرم – 2 ۔ 8065 میٹر ۔ دستغل سار 7882 میٹر ۔ راکا پوشی 7788 میٹر اور کنجت سار 7761 میٹر ۔

پرانی کہانیوں کے مطابق جموں کشمیر اشوک موریہ کے زیر انتظام بھی رہا جس کا دور حکومت 273 قبل مسیح سے 232 قبل مسیح تک تھا ۔ اس کے بعد 3 قبل مسیح تک 235 سال کا کچھ پتا نہیں پھر کشان 2 قبل مسیح سے 7 سن عیسوی تک حکمران رہا ۔ اس کے بعد کرکوٹا کا عہد آیا ۔ انہیں 855 عیسوی میں اوتپلاس نے نکال دیا ۔ ان کے بعد تنترین ۔ یسکارا اور گپتا 1003 عیسوی تک ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہے ۔ پھر لوہارا 1346 عیسوی تک جموں کشمیر میں رہے ۔ یہ صحیح طرح معلوم نہیں کہ ان کے زیر اثر کتنا علاقہ تھا ۔

سن 1346 عیسوی میں شمس الدین نے جموں کشمیر کو فتح کیا اور یہاں مسلم ریاست کی بنیاد رکھی ۔ گلگت ۔ بلتستان ۔ کشمیر ۔ پونچھ اور جموں اس کی سلطنت میں شامل تھے جبکہ لدّاخ کی صورت حال واضح نہیں ۔ 1586 عیسوی میں شہنشاہ مغلیہ جلال الدین اکبر نے جموں کشمیر کو سلطنت مغلیہ میں شامل کر لیا ۔ اس وقت جموں کشمیر کے 80 فیصد سے زائد لوگ مسلمان تھے اور لدّاخ میں بھی لوگ مسلمان ہونا شروع ہو گئے تھے ۔

1757 عیسوی میں احمد شاہ درّانی نے جموں کشمیر کو فتح کر کے افغانستان میں شامل کر لیا ۔ سلطنت کا مرکز دور ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ انتظامی ڈھانچہ کمزور پڑ گیا چنانچہ پونے پانچ سو سال مسلمانوں کی حکومت رہنے کے بعد 1819 عیسوی میں رنجیت سنگھ نے جموں کشمیر کو فتح کر کے اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا ۔

Tuesday, July 05, 2005

۔ مزید پرویز مشرف فارمولا ۔ ڈیمز – قحط اور سیلاب JK3

پچھلی پوسٹس پڑھنے کے لئے متعلقہ تاریخ پر کلک کیجئے
.
میں نے اپنی یکم جولائی کی پوسٹ میں بگلیہار کے علاوہ تین نئے ڈیموں کا ذکر کیا تھا جس سے کچھ غلط تاءثر
لیا گیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے بھارت دریائے جہلم اور چناب پر تین ڈیم مکمل کر چکا ہے ۔ یہ کل سات ڈیم ہیں ۔ دو دریاؤں پر سات ڈیم بنانے کے دومقاصد ہیں ۔

اول یہ کہ دریاؤں کا سارا پانی چینلائز کر کے بھارتی پنجاب لیجایا جائے اور ضرورت کے وقت پاکستان کو پانی نہ دے کر قحط کا شکار بنا دیا جائے ۔

دوم جب برف پگلے اور بارشیں زیادہ ہوں تو اس وقت سارا پانی ڈیموں والے پانی سمیت جہلم اور چناب میں چھوڑ دیا جائے تاکہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب آئے ۔ بھارت یہ حرکت دو بار پہلے بھی کر چکا ہے ۔ مگر اس وقت ایک راوی ۔ چناب اور جہلم پر صرف دو یا تین ڈیم تھے ۔

بھارت کا اعلان کہ ڈیم بجلی کی پیداوار کے لئے بنائے جا رہے ہیں سفید جھوٹ اور دھوکا ہے ۔ کیونکہ جموں کشمیر پہاڑی علاقہ ہے ہر جگہ دریاؤں کے راستہ میں بجلی گھر بنائے جا سکتے ہیں اور بڑے ڈیم بنانے کی بالکل بھی ضرورت نہیں
۔
.
میں یہ بھی لکھنا بھول گیا تھا کہ تقسیم ہند کے فارمولا کے مطابق ریاستوں کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ ریاست کی مجموعی آبادی کی بنیاد پر ہونا تھا ۔ اس لئے امریکہ کی ایماء پر پرویز مشرف کا پیش کردہ سات ریاستوں والا فارمولا دوسری وجوہات کے علاوہ بنیادی طور پر بھی غلط ہے ۔ مزید یہ کہ اس فارمولا کے نتیجہ میں جموں پورے کا پورا بھارت کو چلا جائے گا اور دریاؤں کا کنٹرول بھارت کو حاصل ہو گا پھر جب پاکستان کو پانی کی ضرورت ہو گی بھارت دریاؤں کا پانی روک کر قحط کا شکار بنائےگا اور جب پانی وافر ہوگا سارا پانی چھوڑ کر پاکستان کو خطرناک سیلاب سے تباہ کر دے گا ۔

Friday, July 01, 2005

۔ پرویز مشرف کا فارمولا JK2

امریکی دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر پالیسی پلاننگ ڈاکٹر سٹیفن ڈی کراسز اور اعلی آفیسر ڈاکٹر ڈینیل مارکسی پچھلے دنوں اسلام آباد کے دورہ پر آئے ہوئے تھے ۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرّف ۔ وزیر اعظم شوکت عزیز ۔ حریت کانفرنس کے سربراہ عباس انصاری اور آزاد کشمیر اور پاکستان شاخ کے کنوینر سیّد یوسف نسیم وغیرہ سے ملاقاتیں کی ۔ با خبر ذرائع کے مطابق امریکی حکام یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر اور سرحدیں نرم کرنے وغیرہ کے منصوبہ پر عمل کر رہے ہیں ۔
میر واعظ عمر فاروق کو پاکستان کے دورہ کے درمیان حریت کانفرنس کا سربراہ بنا دیا گیا اور انہوں نے سری نگر پہنچتے ہی یونائیٹڈ سٹیٹس آف کشمیر فارمولا کی بات کی ہے ۔ اس سے واضح ہو گیا ہے کہ جموں کشمیر کو سات ریاستوں میں تقسیم کر کے ان کی یونین بنانے کا جو فارمولا امریکہ کے دورہ سے واپس آ کر جنرل پرویز مشرف نے پیش کیا تھا وہ دراصل امریکی حکومت کی خواہش و تجویز ہے ۔

میں پچھلی پوسٹ میں لکھ چکا ہوں کہ پاکستان کا حال ہی میں دورہ کرنے والے حریت کانفرنس کے لیڈر جموں کشمیر کے عوام کے نمائندے نہیں ہیں بلکہ کچھ حکومتوں کی کٹھ پتلیاں ہیں ۔