. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Sunday, July 10, 2005

ضرورت ایک سنجیدہ سوچ کی

آئیے پہلے ہم لندن میں حالیہ بم دھماکوں کی پر زور مذمت کریں جس سے ستاون بے قصور انسان ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔
اب ذرا اپنے دماغ پر پوری سنجیدگی سے زور دے کر ان انسان دشمنوں کی کھوج لگائیں جنہوں نے یہ اندوہناک واقعہ کیا ۔

اول ۔ ہم سب نے لفظ قاعدہ تو سنا ہوا تھا یعنی اردو کا قاعدہ اور مثلث کا قاعدہ مگر لفظ القاعدہ پہلی بار چار سال قبل 9 ستمبر کے بعد امریکی حکومت سے سنا اور پھر امریکہ کے حواریوں نے بھی اسے اپنا لیا ۔

دوم ۔ سال 2001 کے آخر یا 2002 کے شروع میں ایک صحافی نے جو افغانستان میں کافی عرصہ رہا تھا لکھا کہ 2001 میں تیل اور گیس پائپ بچھانے کے سلسلہ میں امریکن سی آئی اے کی ٹیم ملا عمر اور اوسامہ بن لادن سے کئی ماہ مذاکرات کرتی رہی ۔ ان کی کوشش تھی کہ پائپ بچھانے کا ٹھیکہ امریکن کمپنی کو دیا جائے مگر ملا عمر نے ارجنٹائین کی کمپنی کے حق میں فیصلہ دیا اس پر امریکی ٹیم ملا عمر کو دھمکی دے کر کہ اس کے اچھے نتائج نہیں ہونگے اگست 2001 میں واپس چلی گئی ۔ اس صحافی کے مطابق جب امریکی ٹیم والے افغانوں سے پوچھتے کہ ملا عمر یا اوسامہ کہاں ہے تو وہ جواب دیتے ۔ القاعدہ ۔
دراصل عربی میں القاعدہ وہی ہوتا ہے جو انگریزی میں بیس ۔ ایئر بیس ہو یا آرمی بیس یا کوہ پیماؤں کا بیس کیمپ یا کسی سیاسی جماعت کا کیمپ ۔ ان سب کو القاعدہ کہا جاتا ہے ۔

سوم ۔ افغانستان میں طالبان ہوں یا عراق میں عراقی ذرا ان کے حملوں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حملے یا تو امریکی فوجیوں یا ان کے حواریوں پر کئے گئے ۔ جو بھی شخص اغواء کیا گیا اور وہ صرف روزی کمانے والا پایا گیا اسے چھوڑ دیا گیا ۔ ایک آدھ غلط واقعات ہوئے ۔ لیکن امریکیوں نے ان سے زیادہ بار اپنے ہی فوجیوں کو مارا ۔

چہارم ۔ لندن کے واقعہ میں مرنے والے عام لوگ تھے ان میں مسلمان بھی ہو سکتے ہیں اور نام نہاد القاعدہ کے ہمدرد بھی ۔

پنجم ۔ لندن کے واقعہ کا فائدہ امریکہ کو اس طرح پہنچتا ہے کہ برطانیہ کی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ وہ رویّہ نہیں اپنایا جو امریکی حکومت نے اپنا رکھا ہے اور برطانیہ اب امریکی حکومت کی نام نہاد وار اگینسٹ ٹیرر سے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہا تھا ۔

ششم ۔ ورڈ ٹریڈ سینٹر کے ٹاورز گرانے کا الزام امریکی حکومت نے جن لوگوں پر لگایا اس کا کوئی واضح ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہی ۔

ہفتم ۔ دو باتیں آج تک کم از کم میری سمجھ میں نہیں آئیں ۔
ایک کہ فلائینگ کی معمولی تربیت کے بعد کوئی شخص اتنا اچھا نشانہ کیسے لے سکتا ہے ۔ میرے عزیز و اقارب میں کئی لوگ پائلٹ ہیں یا رہے ہیں ایئر فورس میں اور کمرشل پائلٹ بھی ۔ ان کا خیال ہے کہ اس کام کے لئے کم از تین سال کی تربیت کے بعد کم از کم پانچ سال کا تجربہ ہونا چاہیئے ۔
دوسری کہ ایک ہوائی جہاز نے اغواء ہونے کے 20 منٹ بعد ٹاور کو ٹکر ماری اور دوسرے نے 38 منٹ بعد ۔ اتنا وقت امریکی سکیورٹی فورسز کہاں تھیں ؟

ہشتم ۔ آج کل شارٹ کٹ بہت رواج پا چکا ہے ۔ مغربی دنیا میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والے نوجوان اسلام کی روح سے ناواقف ایزی منی اور ایزی سال ویشن کا شکار ہو رہے ہیں ۔ ان کا ایسے کام میں ملوّث ہونا قرین قیاس ہو سکتا ہے
۔

3 Comments:

  • At 12:07 am, Anonymous Anonymous said…

    اول: القاعدہ کا ذکر پہلی بار افریقہ میں سفارت خانوں کو بم سے اڑانے کے سلسلے میں میں نے سنا تھا۔ میں نے اس بات کو اخبارات کے ڈیٹابیس سے بھی کنفرم کیا ہے۔

    دوم: صحافی کا نام؟

    سوم: میں عراق کی جنگ کا مخالف ہوں مگر آپ شائد اقوام متحدہ کے دفتر پر حملہ بھول گئے ہیں جس میں بہت بے گناہ لوگ مارے گئے۔ دور کیوں جائیں مصر کے سفیر کا قتل ابھی دو دن پہلے کی بات ہے۔ اس کے علاوہ کتنے عراقیوں کو بھی مارا گیا ہے۔

    میرا خیال ہے اتنا کمنٹ کافی ہے۔ باقی بعد میں۔

     
  • At 9:34 pm, Blogger Shuaib said…

    افغانستان میں پائپ لائن اور صحافی والا پیرا، میرے لئے بالکل نئی معلومات ہیں ـ

    ہم اسوقت عراق میں نہیں کہ آنکھوں دیکھا حال بیان کرسکیں ـ خبروں سے معلوم ہو رہا ہے عراق میں روزانہ درجنوں ہلاکتوں کے ذمہ دار خود عراقی ہیں، خودکش بمبار عراقی اور مرنے والے بھی عام عراقی ـ

     
  • At 7:22 am, Blogger افتخار اجمل بھوپال said…

    شعیب صاحب ۔ افغانستان میں پائپ لائین کی میں کوئی سند تو پیش نہیں کرسکتا یہ بھی اسی طرح کی ایک رپورٹ ہے جس طرح ہم دوسری رپورٹیں اخبار میں پڑتے ہیں ۔ حوالہ اس لئے نہیں دے سکتا کہ بات تین سال سے زائد پرانی ہے اور اب ویب سائٹ پر موجود نہیں ۔

    بقایا جو آپ نے تحریر کیا ہے آپ میری پوسٹ بالخصوص حصہ سوم ذرا غور سے پڑھئے آپ کو جواب مل جائے گا ۔

     

Post a Comment

<< Home