. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Monday, June 27, 2005

میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن JK1

انشاء اللہ العزیز
تجھے پنجہء اغیار سے چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن
.
میرا وطن جموں کشمیر جس کے متعلق علّامہ اقبال نے کہا ۔
گر فردوس بر روئے زمیں است ۔ ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
مطلب ۔ اگر جنت زمین کی سطح پر ہے تو یہی ہے اور یہی ہے اور یہی ہے
.
دانیال نے کچھ دن قبل خواہش ظاہر کی تھی کہ میں مسئلہء جموں کشمیر کے متعلق کچھ لکھوں ۔ دانیال سے لکھنے کا وعدہ کر کے میں مشکل میں پھنس گیا ۔ نہ میرے سچے جذبات کے اظہار کے لئے مجھے مناسب الفاظ ملتے ہیں اور نہ میری انگلیاں دماغ سے امڈتے ہوئے سیلاب کا ساتھ دیتی ہیں ۔ پھر ایک اور سوچ کہ کہاں سے شروع کروں کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں کیونکہ جموں کشمیر کا مسئلہ لاکھوں انسانوں کی پچھتر سالہ جّد و جہد اور اٹھاون سالوں پر محیط اذیّتوں کی روئیداد ہے اور اس مسئلہ کو پچھلی آدھی صدی میں گما پھرا کر اتنا کمپلیکس بنا دیا گیا ہے کہ عام آدمی تو ایک طرف رہا ۔ خود جموں کشمیر کے رہنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے ۔ دانیال کا اشارہ حریت کانفرنس کے چند ارکان کے دورہء پاکستان کی طرف تھا ۔ چنانچہ سوچا گہ یہاں سے آغاز کیا جائے ۔ پھر اللہ جہاں لے جائے ۔

حریت کانفرنس کے جو لوگ پاکستان آئے تھے ان میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب حکومتوں کے بنائے ہوئے لیڈر ہیں اور مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں میں کوئی نمائندگی نہیں رکھتے ۔ جے کے ایل ایف (جموں کشمیر لبریشن فرنٹ) پاکستان کے سربراہ امان اللہ خان نے 25 جون 2005 کو اپنی کتاب جہد مسلسل حصہ دوم کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے خود کہا کہ انہوں نے 1988 میں آئی ایس آئی کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک شروع کی تھی ۔ خیال رہے کہ امان اللہ کے بھی مقبوضہ جموں کشمیر میں کوئی پیروکار نہیں ہیں ۔ جے کے ایل ایف بےنظیر بھٹو کے دور حکومت اور اسی کی پشت پناہی سے معرض وجود میں آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نمائندے پاکستان کے دورہ کے دوران زیادہ تر پاکستان کی حکومت کی ہی تعریفیں کرتے رہے
۔
پاکستان کا دورہ کرنے والوں میں ایک دو کے تھوڑے پیروکار ہیں ۔ لیکن جو مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے اصل نمائندے ہیں وہ پاکستان نہیں آئے کیونکہ وہ جنگ بندی لائن ۔ جسے ذوالفقار علی بھٹو نے لائن آف کنٹرول مان لیا تھا ۔ کو نہیں مانتے اور بھارتی بس میں اسے عبور کرنے کو وہ اسے مستقل سرحد قبول کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں ۔
۔
پاکستان میں قیام کے دوران ایک تھوڑے پیروکاروں والے یاسین ملک نے کہا ۔ ہم سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ۔ دو سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے ۔ نارائن اور طارق عزیز بڑے فیصلے کر رہے ہیں ۔ سی بی ایمز ہو رہے ہیں ۔ ہمیں کسی نے پوچھا ؟

واپس جا کر عباس انصاری (پرویز مشرف کا نمائندہ) نے جو بیان دیا ہے اس کے مطابق جموں کشمیر کا فیصلہ وہاں کے باشندوں کے نمائندوں کی مذاکرات میں شمولیت کے بغیر ہو سکتا ہے ۔ یہ بات کیسے مانی جاسکتی ہے کہ جن کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے اور جنہوں نے اس کے لئے صرف پچھلے پندرہ سال میں لاتعداد اذیّتیں سہیں ۔ جن کے سینکڑوں گھر جلا دیئے گئے ۔ جن کے ایک لاکھ سے زائد پیاروں کو شہید کر دیا گیا اور جن کی ہزاروں ماؤں بہنوں بیویوں بیٹیوں اور بہوؤں کی عزتیں لوٹی گئیں ۔ ان کو شامل کئے بغیر ان کی قسمت کا فیصلہ ایک کافر دشمن اور دوسرا ملٹری ڈکٹیٹر مل کے کر دیں ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پرویز مشرف کی خفیہ نے حریّت کانفرنس کو کمزور کرنے کے لئے عباس انصاری کو لیڈر بنا کر حریّت کانفرنس میں پھوٹ ڈالی تھی ؟ اور اب مقصد حاصل ہو جانے کے بعد پاکستان بلا کر عمر فاروق کو حرّیت کانفرینس کا سربراہ بنا دیا۔ اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ جو لوگ آئے تھے ان کا اصلی لیڈر کون ہے (پرویز مشّرف) ۔

جو کھیل ہماری حکومت اپنے آقاؤں (امریکی حکومت) کے اشارہ پر کھیل رہی ہے اس کا ذاتی فائدہ پرویز مشرف کو اور سیاسی فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے ۔ نہ صرف جموں کشمیر کے لوگ بلکہ پاکستانی عوام بھی خسارے میں ہیں ۔ پرویز مشرف نے یک طرفہ جنگ بندی اختیار کی جس کے نتیجہ میں ۔ ۔ ۔

بھارت نے پوری جنگ بندی لائین پر جہاں دیوار بنانا آسان تھی وہاں دیوار بنا دی باقی جگہ کانٹے دار تاریں بچھا دیں یعنی جو سرحد بین الاقوامی طور پر عارضی تھی اسے مستقل سرحد بنا دیا ۔

سرحدوں سے فارغ ہو کر بھارتی فوجیوں نے آواز اٹھانے والے کشمیری مسلمانوں کا تیزی سے قتل عام شروع کر دیا اور متواتر روزانہ دس سے بیس افراد شہید کئے جارہے ہیں ۔ معصوم خواتین کی عزتیں لوٹی جا رہی ہیں اور گھروں کو جلا کر خاکستر کیا کیا جا رہا ہے ۔ کئی گاؤں کے گاؤں فصلوں سمیت جلا دیئے گئے ہیں ۔

بگلیہار ڈیم جس پر کام رکا پڑا تھا جنگ بندی ہونے کے باعث بھارت بڑی تیزی سے تقریبا مکمل کر چکا ہے اور تین اور ڈیموں کی بھی تعمیر شروع کر دی گئی ہے ۔

کمال یہ ہے کہ پاکستان کی دوستی کی دعوت کے جواب میں بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے گلگت اور بلتستان پر بھی اپنی ملکیت کا دعوی کر دیا ہے جبکہ گلگت اور بلتستان کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھے اور نہ یہاں سے کوئی راستہ بھارت کو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوج کے زبردستی جموں میں داخل ہونے سے بھی پہلے گلگت اور بلتستان میں اپنی حکومت قائم کر کے ان کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا ۔ مختصر یہ کہ میجر حسن خان یکم ستمبر 1947 کو جب کشمیر سےاپنی رائفل کمپنی کے ساتھ بونجی (گلگت) کی طرف روانہ ہوا تھا تو اس نےپّاکستان کا نعرہ لگایا اور پوری کمپنی نے بآواز بلند زندہ باد کہا ۔ یہ کمپنی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتی اور باقی لوگوں کو ساتھ ملاتی بونجی پہنچی ۔ یہ گلگت اور بلتستان کے پاکستان سے الحاق کا اعلان تھا جس کی منصوبہ بندی 19 جولائی 1947 کو آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کے اہم اجلاس میں قرارداد الحاق پاکستان کے منظور ہونے کے ساتھ ہی کر لی گئی تھی ۔ میجر حسن خان نے یکم نومبر 1947 تک اپنی آزاد حکومت قائم کر کے ‍قائد اعظم کو مطلع کیا جس کے نتیجہ میں 15 نومبر 1947 کو پاکستان کے نمائندہ سردار عالم نے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر عنان حکومت سنبھال لیا تھا ۔

اللہ سبحانہ و تعالی ہماری مدد فرمائے اور ایسا نہ ہو آمین مگر آثار یہی ہیں کہ جب متذکّرہ بالا ڈیم مکمل ہو جائیں گے تو کسی بھی وقت بھارت دریائے چناب کا پورا پانی بھارت کی طرف منتقل کر کے پاکستان کے لئے چناب کو خشک کر دے گا اور دریائے جہلم کا بھی کافی پانی روک لے گا ۔ اس طرح پانی کے بغیر پاکستان کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور زندہ رہنے کے لئے پاکستان کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ۔ چنانچہ بغیر جنگ کے پاکستان بھارت کا غلام بن جائے گا ۔ قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے پرویز مشرف نے منگلا ڈیم کو دس میٹر اونچا کرنے کا ملٹی بلین پراجیکٹ شروع کیا ہے ۔ چند سال بعد دریائے جہلم میں اتنا بھی پانی ہونے کی امید نہیں کہ ڈیم کی موجودہ اونچائی تک جھیل بھر جائے پھر یہ اتنا روپیہ کیوں ضائع کیا جا رہا ہے ؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ ایک زمنی بات ۔ پہلی پلاننگ کے مطابق منگلا ڈیم کی اونچائی موجودہ اونچائی سے دس میٹر زیادہ تجویز کی گئی تھی 1962 میں کا م شروع ہونے سے پہلے ڈیم کی سیفٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے اونچائی دس میٹر کم کر دی گئی تھی ۔ اس لئے اب اونچائی زیادہ کرنا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس سلسلہ میں میں اور کئی دوسرے حضرات جن میں زیادہ تر انجنیئر ہیں اخباروں میں خط اور مضامین لکھ چکے ہیں مگر ہماری حکومت کو کسی کی پرواہ نہ نہیں ۔
باقی انشا اللہ آئیندہ

1 Comments:

  • At 5:55 pm, Blogger Nauman said…

    Some history! It is good to know the views or the people who are directly effected by the conflict.

    Keep on writing.

     

Post a Comment

<< Home