. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Wednesday, June 29, 2005

مختاران مائی کیس

مختارراں مائی کے کیس میں اٹارنی جنرل نے افسانوی رخ اختیار کیا ۔ نمعلوم اس سے کیس کو قانونی طور پر فائدہ ہو گا یا نقصان ۔ دراصل اس کیس کو پہلے تو پولیس نے ایف آئی آر درج نہ کر کے نقصان پہنچایا اور پھر کچھ این جی اوز نے بشمول اسماء جہانگیر اس کو بجائے بطور لیگل کیس مضبوط کرنے کے اپنی دکان چمکانے کے لئے ایک سیا سی مسئلہ بنا کر مزید نقصان پہنچایا ۔ اس دوران کئی کارآمد شہادتیں ضائع ہو گئیں ۔

اب بھی اگر حکومت یا پولیس چاہے تو جرگہ میں موجود افراد میں سے کچھ کو صحیح اور سچے بیانات دینے پر مجبور کر سکتی ہے مگر اس کے لئے ان گواہوں اور ان کے خاندانوں کو مکمل اور دیرپا تحفظ فراہم کرنا ہو گا ۔ فوری طور پر تیرہ کے تیرہ ملزموں گرفتار کرنا پہلا قدم ہو گا ۔ اگر اس میں کسی بھی وجہ سے تاخیر ہوئی تو کیس کی صحت کے لئے اچھا نہ ہو گا
۔

Monday, June 27, 2005

میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن JK1

انشاء اللہ العزیز
تجھے پنجہء اغیار سے چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنّت میں آئیں گے اک دن
.
میرا وطن جموں کشمیر جس کے متعلق علّامہ اقبال نے کہا ۔
گر فردوس بر روئے زمیں است ۔ ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
مطلب ۔ اگر جنت زمین کی سطح پر ہے تو یہی ہے اور یہی ہے اور یہی ہے
.
دانیال نے کچھ دن قبل خواہش ظاہر کی تھی کہ میں مسئلہء جموں کشمیر کے متعلق کچھ لکھوں ۔ دانیال سے لکھنے کا وعدہ کر کے میں مشکل میں پھنس گیا ۔ نہ میرے سچے جذبات کے اظہار کے لئے مجھے مناسب الفاظ ملتے ہیں اور نہ میری انگلیاں دماغ سے امڈتے ہوئے سیلاب کا ساتھ دیتی ہیں ۔ پھر ایک اور سوچ کہ کہاں سے شروع کروں کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں کیونکہ جموں کشمیر کا مسئلہ لاکھوں انسانوں کی پچھتر سالہ جّد و جہد اور اٹھاون سالوں پر محیط اذیّتوں کی روئیداد ہے اور اس مسئلہ کو پچھلی آدھی صدی میں گما پھرا کر اتنا کمپلیکس بنا دیا گیا ہے کہ عام آدمی تو ایک طرف رہا ۔ خود جموں کشمیر کے رہنے والوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے ۔ دانیال کا اشارہ حریت کانفرنس کے چند ارکان کے دورہء پاکستان کی طرف تھا ۔ چنانچہ سوچا گہ یہاں سے آغاز کیا جائے ۔ پھر اللہ جہاں لے جائے ۔

حریت کانفرنس کے جو لوگ پاکستان آئے تھے ان میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب حکومتوں کے بنائے ہوئے لیڈر ہیں اور مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں میں کوئی نمائندگی نہیں رکھتے ۔ جے کے ایل ایف (جموں کشمیر لبریشن فرنٹ) پاکستان کے سربراہ امان اللہ خان نے 25 جون 2005 کو اپنی کتاب جہد مسلسل حصہ دوم کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے خود کہا کہ انہوں نے 1988 میں آئی ایس آئی کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک شروع کی تھی ۔ خیال رہے کہ امان اللہ کے بھی مقبوضہ جموں کشمیر میں کوئی پیروکار نہیں ہیں ۔ جے کے ایل ایف بےنظیر بھٹو کے دور حکومت اور اسی کی پشت پناہی سے معرض وجود میں آئی ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نمائندے پاکستان کے دورہ کے دوران زیادہ تر پاکستان کی حکومت کی ہی تعریفیں کرتے رہے
۔
پاکستان کا دورہ کرنے والوں میں ایک دو کے تھوڑے پیروکار ہیں ۔ لیکن جو مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے اصل نمائندے ہیں وہ پاکستان نہیں آئے کیونکہ وہ جنگ بندی لائن ۔ جسے ذوالفقار علی بھٹو نے لائن آف کنٹرول مان لیا تھا ۔ کو نہیں مانتے اور بھارتی بس میں اسے عبور کرنے کو وہ اسے مستقل سرحد قبول کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں ۔
۔
پاکستان میں قیام کے دوران ایک تھوڑے پیروکاروں والے یاسین ملک نے کہا ۔ ہم سے کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ۔ دو سال سے پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے ۔ نارائن اور طارق عزیز بڑے فیصلے کر رہے ہیں ۔ سی بی ایمز ہو رہے ہیں ۔ ہمیں کسی نے پوچھا ؟

واپس جا کر عباس انصاری (پرویز مشرف کا نمائندہ) نے جو بیان دیا ہے اس کے مطابق جموں کشمیر کا فیصلہ وہاں کے باشندوں کے نمائندوں کی مذاکرات میں شمولیت کے بغیر ہو سکتا ہے ۔ یہ بات کیسے مانی جاسکتی ہے کہ جن کی قسمت کا فیصلہ ہونا ہے اور جنہوں نے اس کے لئے صرف پچھلے پندرہ سال میں لاتعداد اذیّتیں سہیں ۔ جن کے سینکڑوں گھر جلا دیئے گئے ۔ جن کے ایک لاکھ سے زائد پیاروں کو شہید کر دیا گیا اور جن کی ہزاروں ماؤں بہنوں بیویوں بیٹیوں اور بہوؤں کی عزتیں لوٹی گئیں ۔ ان کو شامل کئے بغیر ان کی قسمت کا فیصلہ ایک کافر دشمن اور دوسرا ملٹری ڈکٹیٹر مل کے کر دیں ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پرویز مشرف کی خفیہ نے حریّت کانفرنس کو کمزور کرنے کے لئے عباس انصاری کو لیڈر بنا کر حریّت کانفرنس میں پھوٹ ڈالی تھی ؟ اور اب مقصد حاصل ہو جانے کے بعد پاکستان بلا کر عمر فاروق کو حرّیت کانفرینس کا سربراہ بنا دیا۔ اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ جو لوگ آئے تھے ان کا اصلی لیڈر کون ہے (پرویز مشّرف) ۔

جو کھیل ہماری حکومت اپنے آقاؤں (امریکی حکومت) کے اشارہ پر کھیل رہی ہے اس کا ذاتی فائدہ پرویز مشرف کو اور سیاسی فائدہ بھارت کو ہو رہا ہے ۔ نہ صرف جموں کشمیر کے لوگ بلکہ پاکستانی عوام بھی خسارے میں ہیں ۔ پرویز مشرف نے یک طرفہ جنگ بندی اختیار کی جس کے نتیجہ میں ۔ ۔ ۔

بھارت نے پوری جنگ بندی لائین پر جہاں دیوار بنانا آسان تھی وہاں دیوار بنا دی باقی جگہ کانٹے دار تاریں بچھا دیں یعنی جو سرحد بین الاقوامی طور پر عارضی تھی اسے مستقل سرحد بنا دیا ۔

سرحدوں سے فارغ ہو کر بھارتی فوجیوں نے آواز اٹھانے والے کشمیری مسلمانوں کا تیزی سے قتل عام شروع کر دیا اور متواتر روزانہ دس سے بیس افراد شہید کئے جارہے ہیں ۔ معصوم خواتین کی عزتیں لوٹی جا رہی ہیں اور گھروں کو جلا کر خاکستر کیا کیا جا رہا ہے ۔ کئی گاؤں کے گاؤں فصلوں سمیت جلا دیئے گئے ہیں ۔

بگلیہار ڈیم جس پر کام رکا پڑا تھا جنگ بندی ہونے کے باعث بھارت بڑی تیزی سے تقریبا مکمل کر چکا ہے اور تین اور ڈیموں کی بھی تعمیر شروع کر دی گئی ہے ۔

کمال یہ ہے کہ پاکستان کی دوستی کی دعوت کے جواب میں بھارت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے گلگت اور بلتستان پر بھی اپنی ملکیت کا دعوی کر دیا ہے جبکہ گلگت اور بلتستان کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں تھے اور نہ یہاں سے کوئی راستہ بھارت کو جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں نے 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوج کے زبردستی جموں میں داخل ہونے سے بھی پہلے گلگت اور بلتستان میں اپنی حکومت قائم کر کے ان کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا ۔ مختصر یہ کہ میجر حسن خان یکم ستمبر 1947 کو جب کشمیر سےاپنی رائفل کمپنی کے ساتھ بونجی (گلگت) کی طرف روانہ ہوا تھا تو اس نےپّاکستان کا نعرہ لگایا اور پوری کمپنی نے بآواز بلند زندہ باد کہا ۔ یہ کمپنی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتی اور باقی لوگوں کو ساتھ ملاتی بونجی پہنچی ۔ یہ گلگت اور بلتستان کے پاکستان سے الحاق کا اعلان تھا جس کی منصوبہ بندی 19 جولائی 1947 کو آل جموں اینڈ کشمیر مسلم کانفرنس کے اہم اجلاس میں قرارداد الحاق پاکستان کے منظور ہونے کے ساتھ ہی کر لی گئی تھی ۔ میجر حسن خان نے یکم نومبر 1947 تک اپنی آزاد حکومت قائم کر کے ‍قائد اعظم کو مطلع کیا جس کے نتیجہ میں 15 نومبر 1947 کو پاکستان کے نمائندہ سردار عالم نے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر عنان حکومت سنبھال لیا تھا ۔

اللہ سبحانہ و تعالی ہماری مدد فرمائے اور ایسا نہ ہو آمین مگر آثار یہی ہیں کہ جب متذکّرہ بالا ڈیم مکمل ہو جائیں گے تو کسی بھی وقت بھارت دریائے چناب کا پورا پانی بھارت کی طرف منتقل کر کے پاکستان کے لئے چناب کو خشک کر دے گا اور دریائے جہلم کا بھی کافی پانی روک لے گا ۔ اس طرح پانی کے بغیر پاکستان کی زمینیں بنجر ہو جائیں گی اور زندہ رہنے کے لئے پاکستان کو بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے ۔ چنانچہ بغیر جنگ کے پاکستان بھارت کا غلام بن جائے گا ۔ قوم کو بیوقوف بنانے کے لئے پرویز مشرف نے منگلا ڈیم کو دس میٹر اونچا کرنے کا ملٹی بلین پراجیکٹ شروع کیا ہے ۔ چند سال بعد دریائے جہلم میں اتنا بھی پانی ہونے کی امید نہیں کہ ڈیم کی موجودہ اونچائی تک جھیل بھر جائے پھر یہ اتنا روپیہ کیوں ضائع کیا جا رہا ہے ؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ۔ ایک زمنی بات ۔ پہلی پلاننگ کے مطابق منگلا ڈیم کی اونچائی موجودہ اونچائی سے دس میٹر زیادہ تجویز کی گئی تھی 1962 میں کا م شروع ہونے سے پہلے ڈیم کی سیفٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے اونچائی دس میٹر کم کر دی گئی تھی ۔ اس لئے اب اونچائی زیادہ کرنا پہلے سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔ اس سلسلہ میں میں اور کئی دوسرے حضرات جن میں زیادہ تر انجنیئر ہیں اخباروں میں خط اور مضامین لکھ چکے ہیں مگر ہماری حکومت کو کسی کی پرواہ نہ نہیں ۔
باقی انشا اللہ آئیندہ

Friday, June 24, 2005

ہائے کیا کروں ؟

ہائے کیا کروں ؟ وقت نہیں ملتا۔ بہت مصروف ہوں ۔ ۔ ۔ سوری ۔ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ۔ ۔ ۔ کیا کروں یہاں تو مرنے کی بھی فرصت نہیں ۔ ۔ ۔ آجکل اس طرح کے الفاظ ہر جگہ اور ہر دم سننے میں آتے ہیں۔ یہ تکیہ کلام لگ بھگ بیس سال قبل بہت بڑے آفیسروں سے شروع ہوا ۔ پھر نیچے کی طرف سفر شروع کیا ۔ چھوٹے آفیسروں نے بڑے لوگوں کی نشانی سمجھ کر اپنایا ۔ پھر جوانوں نے ترقی کا راستہ سمجھتے ہوئے اختیار کیا۔ گویا یہ تکیہ کلام وباء کی صورت اختیار کر گیا ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سکول کے بچے ۔ بالخصوص بچیاں ۔ یہی کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں۔ بچوں کی سطح پر ابھی یہ مرض زیادہ تر بڑے گھرانوں اور اپنے آپ کو ترقی یافتہ یا ماڈرن سمجھنے والے گھرانوں میں پھیلا ہے مگر ڈر ہے کہ درمیانے طبقہ کے لوگ جو آئے دن روشن خیالی کا راگ سنتے ہیں ۔ وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہو جائیں گے کیونکہ آخر ان کا بھی دل چاہتا ہے بڑے آدمی بننے کو ۔ اصل میں تو بیچارے بڑا بننے سے رہے۔ کم از کم گفتار میں تو بن جائیں۔ اس کے لئے تو کوئی روپیہ پیسہ بھی درکار نہیں۔

اللہ سبحانہ و تعالی کی بڑی مہربانی رہی مجھ پر کہ میرے بچے اس سے محفوظ رہے۔ بڑے بیٹے زکریا کا ایک واقعہ تیرہ سال پہلے کا مجھے یاد ہے۔ اس کا انجنئرنگ کا تھرڈ ایئر کا سالانہ امتحان تھا۔ اگلے دن صبح پرچہ تھا۔ ایک لڑکا جو کسی اور کالج کا طالب علم تھا۔ شام سے پہلے سوال سمجھنے آیا۔ سمجھتے سمجھتے رات کے نو بج گئے۔ ہم لوگ آٹھ بجے کھانا کھاتے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے ڈرائنگ روم میں جا کر کہا۔ بیٹے آپ نے ابھی کھانا بھی کھانا ہے اور پھر سونا کب ہے ۔ کل آپ کا پرچہ ہے۔ یہ سن کر وہ لڑکا ایک دم یہ کہتے ہوۓ اٹھا۔" ہیں ؟ امتحان ؟ اس نے مجھے بتایا ہی نہیں" اور وہ چلا گیا۔ امریکہ میں بھی زکریا ایسے ہی کرتا ہو گا۔ کیونکہ عادت بدلنا مشکل ہوتا ہے ۔
ہم پرانے وقتوں کے لوگ ہیں ۔ سکول کے ٹیسٹ میں دس میں سے دس کی بجائے نو نمبر آ جائیں تو گھر والے یوں گھورتے تھے جیسے کھا ہی جائیں گے۔ عام دن ہوں یا سالانہ امتحان چند دن بعد ہوں ۔ روزانہ تھیلا اور پیسے ہاتھ میں تھما کر کہا جاتا ۔ جاؤ سبزی منڈی سے سبزی لے کر آؤ اور دیکھو بھاگتے ہوئے جاؤ اور آؤ۔ واپس آ کر پڑھنا بھی ہے۔ روزانہ اپنے سکول جانے سے پہلے بہن کو سکول چھوڑنا اور چھٹی کے بعد اسے گھر لے کر آنا بھی میرا فرض تھا ۔ روزانہ انگریزی کا اخبار پڑھنا بھی میرے فرائض میں داخل تھا کہ اس سے انگریزی فرفر ہو جاتی ہے ۔ پہلے سول اینڈ ملٹری گزٹ پڑھتا رہا ۔ وہ بند ہو گیا تو پاکستان ٹائیم ۔ ایک ماہ میں دو بار چکی سےگندم پسوا کر لانا بھی میرا کام تھا ۔ ہفتہ وار چٹھی کے دن گھر کی جھاڑ پونچھ کرنا ہم سب بھائی بہنوں کا کام تھا۔ روزانہ ایک گھینٹہ ہاکی یا بیڈمنٹن یا باسکٹ بال کھیلنا بھی میرے لئے ضروری تھا کیونکہ والد صاحب کہتے تھے کہ صحت نہیں ہو گی تو پڑھائی کیسے ہو گی۔ رات کو نو بجے سو کر صبح ساڑھے تین چار بجے اٹھنا اور صبح سویرے سیر کے لئے جانا بھی صحت کے لئے ضروری تھا۔ لیکن مجال ہے کبھی دل میں یہ خیال گھسا ہو کہ میں مصروف ہوں ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرے سب ساتھی لڑکوں کا بھی کم و بیش یہی حال تھا ۔

میرا خیال ہے ہماری تعلیم کے زمانہ میں ایک دن میں شاید چوبیس گھینٹے کام کے لئے اور آٹھ گھینٹے آرام کے لئے ہوتے ہوں گے ۔ کیا خیال ہے ؟

Wednesday, June 22, 2005

Anonymous Comment on "Urdu Medium School"

Following anonymous comments on my post “Urdu Medium Student” made me write another post.



Somehow I donot agree with you because I believe that a genius can be born to a rich or to a poor. And when you say that "How many of the “O”, “A” levels students are able to get admission in the high merit institutions like medical, engineering, etc ?"I dont agree here as well because the std of A levels and O levels is much higher then what is taught at metric or intermediate level. Students who are not able to clear the medical or engineering tests is not because they are not "genius" enough but because the course material is totally different.
the days when you were taught english was the time of british rule the language you use is mostly English and not American. What I see is that most Pakistani kids are more influenced with the American rather then the English and some of them are not even aware of the difference and thus we are building a confuse nation. I dont know what research and what knowledge you have but it will be good if you try to go out and see the reality rather then doing research on internet because 80% of information on internet is False. Islambad/ Wah is not even 1/3 of Pakistan try to look at a bigger picture for the future.

I do not say that genius are born only in the poor families. (By the way, what makes anybody think that I or my parents were poor ?) What I referred to in my previous post was in a different context.

Talking of entry tests is story of only past some years. What was happening before ? The contention, that course material is different, does not hold good. It does not call for only a genius to qualify in the entry test. Hard-working students with normal intelligence can get through.

I was not taught English under British rule. (I was a child then) I studied in Urdu medium school and then in Gordon College. Gordon College was run by American mission and we were taught American dialect of English while we were examined in pure English (British). So, we were in a difficult position. Present confusion among young generation is not created by American or British dialect of English but it is due to false status consciousness.

My knowledge is not confined to Islamabad, Wah and internet. However, I have been seeking knowledge from internet since internet started in Islamabad. The contention that 80% of information on the internet is false is not correct. It all depends upon one’s selection.

Allah had been kind enough to provide me chances (official) to go all over Pakistan and Azad Jammu & Kashmir in relation to education, management and public administration. In addition, having remained honorary inspector of examinations of Technical Education for two and a half years (1983-1985) and of engineering universities for seven years (1988-1996), problem of education and admissions always remained under discussion. Still whatever I say is my opinion and everybody is free to differ with me.

Kindly do not under-estimate Wah. It is a paradise of education. Literacy (Matric pass) in Wah is nearly 100% and sons / daughters of not only officers but of workers have become qualified doctors, engineers, economists, auditors, financial managers and what not. Post-graduate colleges, for boys and girls separately, have been functioning in Wah for decades. In addition, about 20 large sized buses used to carry students to different colleges / universities in Rawalpindi and Islamabad. On that many used to study at Lahore, Karachi, Peshawar and in Europe and USA. A medical college started functioning in Wah last year. The Technical Training Institute which Allah, SWT, got established by me in Wah (1983-1985) is, al-hamdu-lillah, fully matured to become an engineering degree college by the next admission session.

Population of Wah is about 231,000, which is 3.6% of Lahore or 1.89% of Karachi.

Tuesday, June 21, 2005

Head & Heart

Many people will walk in and out of your life,
But only true friends will leave foot prints in your heart.

To handle yourself, use your head;
To handle others, use your heart.

Anger is only one letter short of danger
Warm your head and cool your heart

Saturday, June 18, 2005

Urdu Medium School

Some persons, who like to appreciate others (Qadeer Ahmed Rana, Shuaib, Manzoor Khan, sorry I forgot others), had praised my English.

Thus, I have been made to reveal the secret (Specially for Mr Qadeer Ahmed Rana). I had studied in Urdu medium schools where the subject of English was taught to me from 6th to 8th class by a teacher who was only a Matriculate and during 9th and 10th by a Graduate (not of English language). They were hard-working and honest teachers and the quality of their teaching was superb. If I had remembered all what they taught me, my English would have been far better than what it is now.

While in 8th class, I started writing letters to different embassies in English seeking information about tourism and education in their respective countries. Today, when I see students of 8th class being pampered by their highly advanced parents, I feel like burying myself alive under the earth.

I write below a few sentences that I remember out of the paragraphs that were given to us for translation at annual examinations of 10th (Matric) and 12th (Intermediate)

Matric Examination: Translate in to idiomatic English
دودھ والا دودھ لئے آ رہا ہے ۔ دودھ کم اور پانی زیادہ ۔ اگر کچھ کہیں تو جواب حاضر کہ جناب قسم لے لیں جو دودھ میں پانی ملایا ہو ۔ سچ ہی تو کہتا ہے کہ دودھ میں پانی نہیں ملایا کیونکہ وہ تو پانی میں دودھ ملاتا ہے ۔ مگرکیا کریں ۔ مجبوری ہے ۔ چائے کا چسکا جو پڑ گیا ہے ۔ چائے بھی کیا چیز ہے ۔ سردیوں میں گرمی اور گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتی ہے ۔

F. Sc. or Intermediate Examination: Translate in to idiomatic English
"اسم شریف ؟" "جناب دیاسلائی کہتے ہیں" "دولت خانہ ؟" "جناب ۔ نہ دولت ۔ نہ خانہ ۔ اصل گھر جنگل ویرانہ تھا مگر حال ہی میں احمدآباد میں بستی بسائی ہے اور سچ پوچھئے تو یہ ننھا سا کاغذی ہوٹل جو آپ کی دو انگلیوں میں دبا ہے یہی میرا موجودہ مکان ہے ۔ ہوں تو میں چھوٹی سی مگر ہر گھر کو میری ضرورت رہتی ہے ۔ میں نہ ہوں تو کوئی چولہا نہ جلے اور آپ بھی تو سگرٹ مجھ ہی سے جلانے چلے ہیں ۔" " اوہ ۔ ہاں

Wednesday, June 15, 2005

Female Comebacks

Man: "Haven't I seen you someplace before ?"
Woman: "Yeah, that's why I don't go there anymore."

Man: "Is this seat empty?"
Woman: "Yes, and this one will be too if you sit down."

Man: "I'd like to call you. What's your number?"
Woman: "It's in the phone book."
Man: "But I don't know your name."
Woman: "That's in the phone book too."

Man: "I would go to the end of the world for you."
Woman: "Yes, but would you stay there?"

Sunday, June 12, 2005

شاعری ایک ذریعہ منافقت کا بھی --- Poetry a Source of Hypocrisy

شاعر ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے کلام اور اپنے عمل سے قومیں بنا دیں یا سوئی ہوئی قوموں کو جگا کر مضبوط بنیادوں پر استوار کر دیا مگر دیکھا گیا ہے کہ کئی شاعر اپنی عملی زندگی کے بالکل برعکس لکھتے ہیں ۔ نمعلوم کیوں مجھے ایسے لوگ پسند نہیں جو کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں ۔ ق‍رآن الحکیم کی سورۃ الصّف۔ آیت 2 اور 3 ۔ " اے لوگو۔ جو ایمان لائے ہو۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک یہ سخت ناپسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں"۔

فیض احمد فیض انڈین سول سروس کا منتخب بیوروکریٹ تھا جو اسلام اور پاکستان کی نسبت قاض حکومت برطانیہ کا زیادہ دلدادہ تھا۔ اس نے شادی غیر ملکی گوری سے کی تھی اور اس کی بیٹی سلیمہ (جس کی شعیب ہاشمی سے شادی ہوئی) حکمرانوں اور وڈ یروں کے لئے قائم کردہ سکول (کنیئرڈ کالج۔ لاہور) میں پڑھتی تھی۔ وہ ایک ارسٹو کریٹ تھا اور باتیں کیمیونسٹ مساوات کی کرتا تھا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے یہ کردار ادا کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بھٹو کے دور میں فیض احمد فیض کی شاعری کو عروچ پر پہنچایا گیا اور علامہ اقبال ۔ الطاف حسین حالی اور دوسرے شاعروں اور ادیبوں کی سبق آموز نظمیں اور مضامین کورس کی کتابوں سے نکال دیئے گئے۔

حارث بن خرم نے 2 جون کو فیض احمد فیض کی ایک نظم نقل کی تھی۔ جو علامہ اقبال کی ایک نظم کی ہجو کے طور پرفیض احمد فیض نے لکھی تھی۔ کمال یہ ہے کہ حاکمی خیالات رکھنے والا دوسروں کو غریبوں کی حالت اصل سے زیادہ خراب بتاتا ہے۔
مجھے اصل نظم کے کچھ شعر یاد ہیں جو لکھ رہا ہوں۔

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہئیے ان کو خون عرب سے

Thursday, June 09, 2005

Want to have some nice time ? Have a minute

If I was in America and had an American wife . . .

My wife and I have the secret to making a marriage last. Two times a week, we go to a nice restaurant, drinks of choice, good food…She goes Tuesdays, I go Fridays.

Someone stole all my credit cards, but I won’t be reporting it. The thief spends less than my wife did.

I asked my wife, “Where do you want to go for our anniversary?” She said, “Somewhere I have never been!” I told her, “How about the kitchen?”

She has an electric blender, electric toaster, and electric bread maker. Then she said, “There are too many gadgets, and no place to sit down!” So what did I do? Bought her an electric chair.

Tuesday, June 07, 2005

Corruption & Hypocrisy – No Angels under Khaki Uniform

The bizarre story of the Saudi cook began when Sharif (name changed) bought a piece of land in the Lahore Defence Housing Authority, managed and run by Army Officers, falling prey to the dubious sale of plots, believing that since Pakistan Army was managing it, he would not be swindled. When on a brief vacation to Lahore, Sharif wanted to have a look at the piece of land he had supposedly paid for, the Pakistan Army Brigadier and his juniors in the DHA, gave him the usual frustrating run around. He was never shown his land.

Sharif returned to his job with the Prince but at an opportune moment informed his royal employer of what had happened. The Prince straightway dialed General Pervez Musharraf.
The General, who would not listen to any one else except, of course, some body from Washington, asked his Vice Chief to order an inquiry as the main culprit was Musharraf’s own recently-shifted Corps Commander in Lahore, Lt. General Zarrar Azim.

Since the new Corps Commander wanted the facts, it turned out that the entire hierarchy of DHA, headed by a Brigadier was deep in collusion with some real estate agencies and were minting billions in fraudulent sales to people like Sharif.

The news of the DHA shake-up was broken by Lahore’s Daily “The News” on February 5, 2005. In a report from Lahore it said the military authorities had removed the top management of DHA on alleged corruption in the planned Phases 6-10 of the Lahore Cantonment Cooperative Housing Society (LCCHS). But the newspaper said DHA Administrator Brigadier Abdul Jalil Khan, Director Land, Lt. Col Ikram, Director Transfers Lt. Col Feroz Bhatti and Deputy Director Land Major Razaq had only been shifted and “placed at the disposal of the Station Headquarters.” Obviously because General Zarrar Azim, now posted in the GHQ, protected them.

The military authorities have constituted an enquiry committee, headed by Commandant Signals Brigade of the 4 Corps Brigadier Khalilullah Butt. The enquiry is underway against military officials and some high-profile realtors.” “The realtors include Yousuf Chauhan of the Chauhan Estate, Haji Allah Ditta of Defense Estate Mr Sahir of Sahir Estate. Apart from these, the owners of Panjnad Estate are also being interrogated,” the newspaper reported.

In its own guarded way, since writing negatively about top Army officers is a risky business in Pakistan, The News said: “The trail of the enquiry is expected to lead the investigators to a couple of high-ranking serving military officials as well. It is important to note this enquiry has been initiated on the orders of Vice Chief of the Army Staff (VCOAS), General Ahsan Saleem Hayat. Commander 4-Corps (Lahore), Lt-Gen Shahid Aziz, has played an important role.”

The Daily Times reported that property dealers had acquired several acres of land belonging to the government with fake names, in connivance with land revenue officials, and thereafter gave it to the DHA authorities. “The dealers acquired agricultural land (now DHA phases 5 to 10) and handed that to the DHA free of cost on the agreement that 25 per cent would be returned to them after their inclusion in the society. Due to stark differences in the prices of agricultural and DHA property, this translated into a very lucrative profit for investors.”

The investigations have led to the blacklisting of four major real estate agents in DHA: Chauhan Estate, Defence Estate, Property Talk and Al-Rehman Associate. Their offices were sealed and their records were confiscated. DHA security personnel have been posted outside the offices to ensure no one goes in. This was another way of helping the collaborators otherwise why would the Army not meet legal requirements to prosecute criminals who had swindled billions. Newspapers reported that DHA had allowed the offices to be reopened, but would not deal with them directly or indirectly.
The most disturbing aspect of the whole scandal, feared by some real estate experts, is that in their scramble to make big money, Army Officers working in the DHA may have sold large tracts of lands to Indian buyers who were investing in DHA lands through their Dubai front offices. According to one source one company had been inquiring about buying 500 acres of land near the Pak-India border. Under the mess that was going it, it may have done so already.

Saturday, June 04, 2005

Candle of Soul

Light the candle in your soul
Carry it into the dark
If you find a flame that's losing its glow
Light it with a spark (of sincerity)

The flame only grows brighter
When it gives another light
And a billion burning candles
Can drive away the night

Hold up your candle for all to see
Reach from shore to shore
And light the world with liberty
Now and forever more

Friday, June 03, 2005

The War on Terrorism Hypocrisy

THE OTHER FACE OF THE WAR ON TERROR by Brad Adams - Executive director of the Asia Division of the New York-based Human Rights Watch.

THE brothers Zain Afzal and Kashan Afzal, US citizens of Pakistani origin, were abducted from their home in Karachi on August 13 last year. They were released on April 22 this year, without having been charged.

During eight months of illegal detention, they were allegedly tortured by Pakistani personnel to extract confessions of involvement in terrorist activities. During this period, FBI agents questioned the brothers on at least six occasions. The FBI agents, who did not intervene to end the torture, insisted that the Pakistani government comply with a court order to produce the men in court, or provide consular facilities normally offered to detained US citizens. They threatened the men with being sent to the US detention facility at Guantanamo Bay if they did not confess to involvement in terrorism.

Pakistan’s poor record on illegal detentions and torture, well-known to the United States, should have acted as a deterrent for the FBI. Instead, the FBI abetted the actions of the Pakistani personnel by participating in the interrogations.

While the brothers were being detained, their mother and Zain Afzal’s wife attempted to lodge an abduction case with the local police. The police refused to register the case, informing them that “this was a matter involving the intelligence agencies.” The police finally registered the case on November 15, 2004, on the orders of the Sindh High Court. During habeas corpus hearings, filed by their mother, Pakistani authorities denied holding the two men. Zain Afzal’s wife made frequent public pleas for the brothers’ release and approached the US embassy, but received no help.

The 2004 US state department human rights report makes clear that embassies in Pakistan can meet their nationals in custody: “Foreign diplomats may meet prisoners when they appear in court and may meet citizens of their countries in prison visits.” Yet no such visits took place until the Human Rights Watch (HRW) intervened seven months after the brothers were abducted.

When queried by the HRW about the status of the brothers and the role of the FBI, the US consul in Karachi in March replied: “We are aware of the reports indicating two American citizens are missing, or ‘disappeared’ in Pakistan, and we are looking into them. Due to Privacy Act considerations, we are unable to provide additional information on these two individuals. The safety and security of Americans overseas is of paramount importance to us, and we continue to work both here and abroad to provide all possible assistance to our citizens. I refer you to the FBI for any information on their involvement.”

While US officials say the safety and security of Americans overseas is paramount, it appears the US government did nothing to help the Afzal brothers until their cases were reported in the international press. The US knew exactly where the brothers were all along, while their family was terrified, not knowing whether they were dead or alive. This is profoundly wrong and should send a chill up the spine of every US citizen living overseas.

Invoking the US Privacy Act to withhold information from a wife and mother about a husband and son who had been “disappeared” is Orwellian: the Privacy Act was adopted to protect the privacy of individuals, not to shield the state from answering questions about the whereabouts of those individuals when they have been “disappeared” by state authorities and when FBI agents are regularly meeting them. “Disappeared” persons would obviously not want the Privacy Act to stand in the way of allowing family members to know where they were. US authorities should be ashamed at the way they handled this case.

Kashan Afzal and Zain Afzal were abducted between midnight and 2 a.m. on August 13, 2004, in a raid that involved at least 30 armed Pakistani personnel. Neighbours came out of their homes to see what was happening, but were ordered to go back inside.

During the operation, the personnel specifically demanded to see the US passports and all other US government-issued identity papers held by the brothers. Once the papers were located, they handcuffed and hooded them and took them away in a convoy of jeeps and vans typically used by Pakistan’s intelligence agencies and police.

The brothers told the HRW that approximately three months into their detention their captors returned their clothes and told them that they would be going home soon. Instead, they, along with scores of others, were blindfolded, shackled, handcuffed and made to board a plane and told they were being taken to Guantanamo Bay. But the plane landed less than two hours later in a place where the “guards all spoke Urdu.”

Subsequent to the change of city, the brothers claim they were repeatedly interrogated by the FBI. “I was blindfolded and taken into another room. When my blindfold was removed I saw a Pakistani man in plain clothes and two white men who flashed FBI badges and said that they had come from the US to investigate me. They asked me my life history all over again. I told them everything. Then they showed me photographs and told me that the pictures were of Al Qaeda members.”

“‘Do you know them?’” they asked. I saw the photos and told them I recognized no one, knew nothing ... The FBI officer said, “We have been told you and your brother have Al Qaeda links.” This interrogation went on for three to four hours. I told the FBI that I was illegally detained and had been tortured. They said they would try to help but that all decisions were to be taken by Pakistani authorities and Pakistan was beyond their jurisdiction.

About 7-10 days later, the same FBI officers and Pakistani officer showed me new pictures. I asked them that they had already held me and my brother for five months and how much longer did they intend to hold us? I told them I had never been involved in a criminal act.

If you have any proof, then show it to me. Or at least tell me how long this will take. I asked to be presented in a court and to be given a lawyer.

The FBI agents did not respond to the request for a lawyer or my demand to be presented in a court and charged. They did tell me that ‘we cannot say what your crime is and how long you will be held. But you are a terrorist and you could be taken to Cuba.’ [In another session] I said if you think we are guilty of a crime please charge us in court or release us. I pointed out that my brother was very ill. They said ‘we are the court.’”

The brothers claim they were released in Lahore and dumped at the airport but only after they were threatened to remain silent by their abductors. The abductors said “Your case is almost over” and “You will be released soon. ... But we will only release you on condition that you will never speak to the press or media or speak against us. Your well-being lies in silence otherwise you and your family will be in big trouble.”

The brothers asked for their American passports and other ID papers and were told the documents would be delivered to them in Karachi. This happened on April 22. They have not received the passports and though they have requested the US consulate in Karachi to reissue the passports, they have had no response yet.

The Human Rights Watch is of the view that the Pakistani authorities must return the US passports and other personal material confiscated from the two brothers when they were illegally detained. The United States embassy should issue new passports immediately upon request if the passports are not promptly returned.

More importantly, the government of Pakistan must take immediate steps to end the practice of illegal arrest and detention of persons as part of the “war on terror” and also end the use of torture and other mistreatment. The use of secret detention facilities must cease immediately.

The HRW has also called on the Bush administration to provide full information on its role in the Afzal case. Specifically, the US must clarify whether the Afzal brothers were held in Pakistani custody at the request of the United States, and state the policy of the US government when it knows or has reason to know that persons being questioned abroad are being tortured or subjected to cruel, inhuman or degrading treatment. The Convention against Torture, to which the United States is a party, prohibits “an act by any person which constitutes complicity or participation in torture.”

The war on terror cannot be won by resorting to illegal detentions and torture. It is time for the US to decide whether it will continue to be complicit in criminal activity in its fight against terrorism, or whether the rule of law will prevail. And if President Musharraf wants to convince the world that he is indeed an enlightened moderate, he needs to immediately order an end to such abusive practices.

Wednesday, June 01, 2005

قوانین میں منافقت ؟ Hypocrisy in laws ?

I have generally blocked all pop ups on my computer and also try to control my own hard Disk (mind) and allow only useful pop ups. While reading Asma’s comment on post of May 29 of my blog “What am I”, a pop-up appeared in my memory showing me a trailer of the history of laws in our country.

If one studies the laws of our country minutely, it appears to his / her mind that many of these have been promulgated to make administration of justice difficult. A glaring example is that of Hadood Ordinance which is not properly worded and, also, implementation of which is difficult because the other laws governing it’s working and implementation have not been changed.

Then we come to the securing or providing justice to common man. If a crime (theft, murder, etc) takes place, F.I.R has to be registered at the Police Station of the area. Working of Police department is such that more unlawful incidences in an area the worse is considered working of Police Station of that area. Consequently, all Police Stations hesitate to register an F.I.R.

Courts and police department are meant to provide justice to people. Our government uses courts to get decisions favouring the government. Police is used only to protect the bigs of the government at the cost of normal duty of police. Further, police and other such agencies are used to harass people’s right demands just because that uncovers inefficiency or bad actions of the government.
Is it not Hypocrisy of our laws, law-implementing machinery and the government ?