ہائے کیا کروں ؟ وقت نہیں ملتا۔ بہت مصروف ہوں ۔ ۔ ۔ سوری ۔ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ۔ ۔ ۔ کیا کروں یہاں تو مرنے کی بھی فرصت نہیں ۔ ۔ ۔ آجکل اس طرح کے الفاظ ہر جگہ اور ہر دم سننے میں آتے ہیں۔ یہ تکیہ کلام لگ بھگ بیس سال قبل بہت بڑے آفیسروں سے شروع ہوا ۔ پھر نیچے کی طرف سفر شروع کیا ۔ چھوٹے آفیسروں نے بڑے لوگوں کی نشانی سمجھ کر اپنایا ۔ پھر جوانوں نے ترقی کا راستہ سمجھتے ہوئے اختیار کیا۔ گویا یہ تکیہ کلام وباء کی صورت اختیار کر گیا ۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ سکول کے بچے ۔ بالخصوص بچیاں ۔ یہی کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں۔ بچوں کی سطح پر ابھی یہ مرض زیادہ تر بڑے گھرانوں اور اپنے آپ کو ترقی یافتہ یا ماڈرن سمجھنے والے گھرانوں میں پھیلا ہے مگر ڈر ہے کہ درمیانے طبقہ کے لوگ جو آئے دن روشن خیالی کا راگ سنتے ہیں ۔ وہ بھی اس مرض میں مبتلا ہو جائیں گے کیونکہ آخر ان کا بھی دل چاہتا ہے بڑے آدمی بننے کو ۔ اصل میں تو بیچارے بڑا بننے سے رہے۔ کم از کم گفتار میں تو بن جائیں۔ اس کے لئے تو کوئی روپیہ پیسہ بھی درکار نہیں۔
اللہ سبحانہ و تعالی کی بڑی مہربانی رہی مجھ پر کہ میرے بچے اس سے محفوظ رہے۔ بڑے بیٹے زکریا کا ایک واقعہ تیرہ سال پہلے کا مجھے یاد ہے۔ اس کا انجنئرنگ کا تھرڈ ایئر کا سالانہ امتحان تھا۔ اگلے دن صبح پرچہ تھا۔ ایک لڑکا جو کسی اور کالج کا طالب علم تھا۔ شام سے پہلے سوال سمجھنے آیا۔ سمجھتے سمجھتے رات کے نو بج گئے۔ ہم لوگ آٹھ بجے کھانا کھاتے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے ڈرائنگ روم میں جا کر کہا۔ بیٹے آپ نے ابھی کھانا بھی کھانا ہے اور پھر سونا کب ہے ۔ کل آپ کا پرچہ ہے۔ یہ سن کر وہ لڑکا ایک دم یہ کہتے ہوۓ اٹھا۔" ہیں ؟ امتحان ؟ اس نے مجھے بتایا ہی نہیں" اور وہ چلا گیا۔ امریکہ میں بھی زکریا ایسے ہی کرتا ہو گا۔ کیونکہ عادت بدلنا مشکل ہوتا ہے ۔
ہم پرانے وقتوں کے لوگ ہیں ۔ سکول کے ٹیسٹ میں دس میں سے دس کی بجائے نو نمبر آ جائیں تو گھر والے یوں گھورتے تھے جیسے کھا ہی جائیں گے۔ عام دن ہوں یا سالانہ امتحان چند دن بعد ہوں ۔ روزانہ تھیلا اور پیسے ہاتھ میں تھما کر کہا جاتا ۔ جاؤ سبزی منڈی سے سبزی لے کر آؤ اور دیکھو بھاگتے ہوئے جاؤ اور آؤ۔ واپس آ کر پڑھنا بھی ہے۔ روزانہ اپنے سکول جانے سے پہلے بہن کو سکول چھوڑنا اور چھٹی کے بعد اسے گھر لے کر آنا بھی میرا فرض تھا ۔ روزانہ انگریزی کا اخبار پڑھنا بھی میرے فرائض میں داخل تھا کہ اس سے انگریزی فرفر ہو جاتی ہے ۔ پہلے سول اینڈ ملٹری گزٹ پڑھتا رہا ۔ وہ بند ہو گیا تو پاکستان ٹائیم ۔ ایک ماہ میں دو بار چکی سےگندم پسوا کر لانا بھی میرا کام تھا ۔ ہفتہ وار چٹھی کے دن گھر کی جھاڑ پونچھ کرنا ہم سب بھائی بہنوں کا کام تھا۔ روزانہ ایک گھینٹہ ہاکی یا بیڈمنٹن یا باسکٹ بال کھیلنا بھی میرے لئے ضروری تھا کیونکہ والد صاحب کہتے تھے کہ صحت نہیں ہو گی تو پڑھائی کیسے ہو گی۔ رات کو نو بجے سو کر صبح ساڑھے تین چار بجے اٹھنا اور صبح سویرے سیر کے لئے جانا بھی صحت کے لئے ضروری تھا۔ لیکن مجال ہے کبھی دل میں یہ خیال گھسا ہو کہ میں مصروف ہوں ۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرے سب ساتھی لڑکوں کا بھی کم و بیش یہی حال تھا ۔
میرا خیال ہے ہماری تعلیم کے زمانہ میں ایک دن میں شاید چوبیس گھینٹے کام کے لئے اور آٹھ گھینٹے آرام کے لئے ہوتے ہوں گے ۔ کیا خیال ہے ؟
6 Comments:
At 10:14 am, S A J Shirazi said…
Inspiring read.
At 11:07 am, افتخار اجمل بھوپال said…
شیرازی صاحب
اچھے دماغ پہلے ہر چیز کا مثبت پہلو دیکھتے ہیں۔ میں تو سوتے رہنے یا فضولیات میں وقت گوارنے کی بجائے اس لئے لکھتا ہوں کہ شائد کسی کے دل میں اتر جائے میری بات ۔
At 8:59 pm, Saqib Saud said…
آپ کی اس تحریر نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
آپ کسی اخبار میں اچھا لکھ سکتے ہیں
At 7:47 am, افتخار اجمل بھوپال said…
پتہپ نہیں اچھا لکھ سکتا ہوں یا نہیں مگر میے مضامین اخبار والے چھاپیں گے نہیں ۔ ایک صحافی اخبار میں بڑی انسانیت دوست تحریریں لکھتے ہيں میں نے انہیں ایک سچا واقع ثبوت کے ساتھ بھیجھا کہ جاہے اپنے طور چھاپ دیں چاہے میرے نام سے ۔ انہوں نے چھاپنا تو کجا مجھے جواب دینات بھی گوانہ نہ کیا ۔
At 1:15 am, Saqib Saud said…
آپ "انتہا پسند" اخبارات میں کوشش کرئیں۔
مثلا تکبیر
At 3:04 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
Wisesabre
تکبیر میں پہلے ہی اچھا لکھنے والے موجود ہیں ۔ اور اس کو پڑھتے بھی صرف باعمل لوگ ہیں ۔ میں ان کو کیا پںھاؤں گا الٹا ان سے پڑھنا چاہیئے
Post a Comment
<< Home