. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Wednesday, November 30, 2005

بندر بانٹ اور دہشت گردی

میں نے ریاست اسرائیل کی 1896 سے 1939 تک کی تاریخ 22 نومبر کو لکھی تھی
اس سے پیشتر بنی اسراءیل کی مختصر تاریخ 14 نومبر کو لکھ چکا ہوں
فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا مقصد ایک صیہونی اڈا بنانا تھا جو وہاں سے فلسطینیوں کے انخلاء اور ان کی جائیدادوں پر قبضے کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ جوں جوں یورپ سے یہودی آتے گئے توں توں فلسطینیوں کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔

تھیوڈور ہرستل نے 1885 میں اپنی ڈائری ميں لکھا تھا " ہم فلسطینیوں کو اپنے ملک میں روزگار کی تلاش سے روکیں گے اور غیر ممالک میں روزگار کا لالچ دے کر جلاوطن کر دیں گے"۔ دوسرے صیہونیوں نے زیادہ راست اقدام کا فیصلہ کیا جو یہ تھا "جونہی ہم فلسطین میں اپنی ایک بستی بنا لیں گے تو ہم زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیں گے ۔ پھر جب ہم مضبوط ہو جائیں گے تو بائیں کنارے کا بھی بندوبست کریں گے"۔ اس منصوبہ میں رکاوٹ یہ آئی کہ شروع میں چند فلسطینیوں نے اپنی زمینیں بیچیں مگر باقی لوگوں نے زمینیں بیچنے سے انکار کر دیا ۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے ذرا سا ہوش سنبھلتے ہی 1947 میں فلسطین کا معاملہ اقوام متحدہ کے حوالہ کر دیا ۔ اس وقت تک یہودیوں کی تعداد فلسطینیوں کا ایک تہائی ہو چکی تھی لیکن یہودی فلسطین کے صرف 6 فیصد کے مالک تھے ۔یو این او نے ایک کمیٹی بنائی جس نے سفارش کی کہ فلسطین کے 56 اعشاریہ 5 فیصد علاقہ پر صرف 6 فیصد کے مالک یہودیوں کی ریاست اسرائیل بنا دی جائے اور 43 اعشاریہ 5 فیصد علاقہ میں سے بیت المقدس کو بین الاقوامی بنا کر باقی تقریبا 40 فیصد فلسطین کو 94 فیصد کے مالک مسلمانوں کے پاس رہنے دیا جائے ۔ 29 نومبر 1947 کو یو این جنرل اسمبلی نے 13 کے مقابلہ میں 33 ووٹوں سے اس کی منظوری دے دی ۔ 10 ممبر غیر حاضر رہے ۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا اور صیہونیوں نے فلسطینی مسلمانوں پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیئے ۔

صیہونیوں کی بڑے پیمانے پر دہشت گردی ۔

صیہونیوں نے بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا جس میں 91 آدمی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ ان میں برطانوی فوجی ۔ فلسطینی مسلمان ۔ عیسائی اور چند یہودی بھی شامل تھے ۔ یہ دنیا میں پہلی بارودی دہشت گردی تھی ۔ صیہونی نقطہء نظر یہاں دیکھئے ۔ برطانوی فوجیوں کی ہلاکت کی وجہ سے برطانیہ کے اندر حکومت پر فلسطین سے فوجیں نکالنے کا دباؤ پڑنے لگا ۔ اس کے علاوہ برطانوی حکومت مزید یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کے امریکی دباؤ سے بھی پریشان تھی ۔ چنانچہ برطانیہ کی حکومت نے اعلان کر دیا کہ وہ فلسطین میں اپنی حکومت 15 مئی 1948 کو ختم کر دے گی ۔

صیہونیوں نے جن کے لیڈر معروف دہشت گرد تھے فلسطینیوں پر حملے اور ان کا قتل تو پہلے ہی شروع کر دیا تھا لیکن 1948 میں اچانک فلسطین کے مسلمانوں پر بڑے پیمانہ پر ایک عسکری کمانڈو حملہ کر کے کچھ دیہات پر قبضہ کر لیا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا ۔ امریکہ صیہونیوں کی پشت پناہ پر تھا اور ان کو مالی اور فوجی امداد مہیا کر رہا تھا ۔ اس طرح روس یورپ اور بالخصوص امریکہ کی مدد سے یہودی نے اپنی دو ہزار سال پرانی آرزو " یہودی ریاست اسرائیل" کا 14 مئی 1948 کو 4 بجے بعد دوپہر اعلان کر دیا جو دراصل صیہونی ریاست تھی کیونکہ کئی یہودی مذہبی پیشواؤں نے اس کی مخالفت کی ۔ اگلے دن برطانیہ کے بقیہ فوجی بھی اپنی چھاؤنیاں صیہونیوں کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ اس کے بعد مار دھاڑ روز کا معمول بن گیا ۔ صیہونی مسلحہ دستے مسلمان عربوں کی املاک پر قبضہ کرتے چلے گئے کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے تربیت یافتہ کمانڈو تھے اور انہيں امریکہ اور برطانیہ کی امداد بھی حاصل تھی ۔ یہودیوں کی دہشت گرد تنظیموں کے نام بدلتے رہے کیونکہ وہ یورپ میں بھی دہشت گردی کرتی رہیں اور دہشت گرد قرار دی جاتی رہیں ۔ مشہور نام یہ ہیں ۔ ہاگانہ ۔ اوردے ونگیٹ ۔ ارگون ۔ لیہی ۔ لیکوڈ ۔ ہیروت ۔ مالیدت ۔

چند مشہور دہشت گرد لیڈروں کے نام یہ ہیں ۔ موشے دیان جو 1953 سے 1957 عیسوی تک اسرائیل کی مسلح افواج کا چیف آف سٹاف رہا ۔ مناخم بیگن جو 1977 میں اسرائیل کا وزیراعظم بنا ۔ یتز ہاک شمیر جو 1983 میں وزیراعظم بنا ۔ ایرئل شیرون جو موجودہ وزیراعظم ہے ۔ موشے دیان کو دہشت گرد ہونے کے باوجود برطانوی فوج میں کسی خاص کام کے لئے کچھ عرصہ کے لئے بھرتی کیا گیا تھا ۔ وہ برطانوی فوج کی ملازمت چھوڑ کر پھر صیہونی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوا اور اس کا کمانڈر بن گیا ۔

عربوں کی املاک پر قبضہ کرنے کے لئے جو حملے کئے جاتے رہے ان کا کمانڈر موشے دیان ہی تھا ۔ ان دہشت گرد تنظیموں نے نہ صرف وہ علاقے زبردستی قبضہ میں لئے جو یو این او یہودیوں کو دینا چاہتی تھی بلکہ ان علاقوں پر بھی قبضہ کیا جو یو این او کے مطابق فلسطینیوں کے تھے ۔ قبضہ کے دوران جو فلسطینی مسلمان نظر آتا اسے قتل کر دیا جاتا ۔ میناخم بیگن اس دہشت گرد گروہ کا سربراہ تھا جس نے بیت المقدس میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل اڑا دیا تھا ۔ صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر وہاں مقیم چار ہزار نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کرنے کا حکم دینے والا ایرئل شیرون تھا جو ان دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔

Saturday, November 26, 2005

کرتے ہیں مجبور مجھے

میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ ان بڑوں کی منافقت کو اجاگر نہ کروں مگر نہ یہ بڑے چین سے بیٹھنے دیتے ہیں نہ ان سے متاءثر تبصرہ نگار ۔ اپنے تیئں ذی شعور ۔روشن خیال اور انصاف پسند تبصرہ نگار فرماتے ہیں ۔ جو ہو گیا ہمیں قبول کر لینا چاہیئے ۔ ہم طاقتور سے لڑ نہیں سکتے اس لئے جو وہ کہے یا کرے مان لینا چاہیئے ۔

میرے خیال میں جو لوگ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" میں یقین رکھتے ہیں ان کا علاج صرف لاٹھی ہی سے ہو سکتا ہے ۔ کم از کم قدیر احمد رانا صاحب اور اسماء کریم مرزا صاحبہ ضرور میری تائید کریں گی ۔ سنیئے ذرا غور سے ۔ او ہاں ۔ ایک منٹ ۔ اصل موضوع بعد میں ۔ مجھے یاد آیا جب ہم سکول میں پڑھتے تھے اس زمانہ میں راولپنڈی کارپوریشن کا ایک منادیہ ہوا کرتا تھا ۔ وہ کارپوریشن کے احکامات بذریعہ منادی عوام تک پہنچایا کرتا تھا ۔ اس کے پاس ٹینس کا ایک ریکٹ ہوتا تھا جس پر چمڑا چڑھا ہوتا تھا اور مخالف سمتوں میں دو ڈوریوں کے ساتھ لکڑی کے منکے لگے ہوتے تھے ۔ وہ ریکٹ کو بطور ڈگڈگی بجاتا اور کہتا " سنیئے جناب والا ۔ کیا کہتا ہے منادی والا ۔ منادی سنیئے غور سے ۔ پھر بات کیجئے کسی اور سے" اس کے بعد وہ حکمنامہ پڑھ کر سناتا ۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا ۔

حال ہی میں ایک برطانوی تاریخ دان ڈیوڈ ارونگ (David Irving) کو آسٹریا میں گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ اس کے وارنٹ گرفتاری 1989 میں جاری ہوۓ تھے ۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے ویانا میں لیکچر دیا تھا جس میں اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کی نازیوں کے ہاتھوں گیس چیمبرز کے ذریعہ موت کے واقعہ کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ مرنے والے یہودیوں کی تعداد انتہائی مبالغہ آمیز ہے ۔ اس نے نام نہاد ہالوکاسٹ (Holocaust) کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا تھا ۔ ڈیوڈ ارونگ کے لیکچر کی بنیاد ایک امریکن فریڈ لاؤخر (Fred Leucher) کی 1988 میں چھپنے والی رپورٹ ہے جو اس نے آؤش وٹس (Auschwitz) میں طویل تحقیق کے بعد لکھی تھی ۔ آؤش وٹس وہی جگہ ہے جہاں گیس چیمبرز کی موجودگی بیان کی گئی تھی ۔

اگر ڈیوڈ ارونگ پر گیس چیمبرز یا ہالوکاسٹ سے انکار کا جرم ثابت کر دیا گیا تو اسے 10 سے 20 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے ۔ امریکہ کے صدر نے خود ایک بڑا جھوٹ ایجاد کیا اور اس کا سہارا لے کر عراق کی تہس نہس پھیر دی ۔

ایک ڈیوڈ ارونگ ہے کہ کسی اور پر لگاۓ گئے جرم کے الزام کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو اسے مجرم کہہ کر جیل میں ڈالا جا رہا ہے اور ایک امریکہ کا صدر ہے جس کے متعلق ساری دنیا جانتی ہے کہ اس نے خود سے ایک جھوٹ گھڑا پھر اسی جھوٹ کے سہارے بلا جواز عراق پر حملہ کیا اور مزید جرم پر جرم کرتا جا رہا ہے اور اسے ابھی بھی ہیومن رائٹس کا چمپین (champion of human rights) کہا جاتا ہے ۔
۔
کیا یہ منافقت کی انتہاء نہیں ؟

Tuesday, November 22, 2005

صیہونی ریاست کی تجویز

میں نے بنی اسراءیل کی بالکل مختصر تاریخ 14 نومبر کو پوسٹ کی تھی ۔ اب ریاست اسرائیل کی مختصر تاریخ ۔

آسٹرین یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی ۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ اس نے 1896 عیسوی میں ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی " ڈر جوڈن شٹاٹ" یعنی یہودی ریاست جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896 میں آیا ۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجٹائن یا مشرق وسطہ کا علاقہ تجویز کیا گیا ۔ برطانوی حکومت نے ارجٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ ۔ سارا فلسطین ۔ سارا اردن ۔ سارا لبنان ۔ شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک تہائی علاقہ ۔ اس کے بعد صیہونی کانگرس کا باسل (سوئٹزرلینڈ) میں اجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تا کہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔

Writes Mr M. Shahid Alam who teaches economics at a university in Boston, USA.

The goal of a Jewish state in Palestine with a Jewish population had an unavoidable corollary. As the Jews entered Palestine, the Palestinians would have to be ‘transferred’ out of Palestine. As early as 1895, Theodore Herzl had figured this out in an entry in his diary: “We shall try to spirit the penniless population across the border by procuring employment for it in the transit countries, while denying it any employment in our own country.”Others took a more direct approach: “As soon as we have a big settlement here we’ll seize the land, we’ll become strong, and then we’ll take care of the Left Bank. We’ll expel them from there, too. Let them go back to the Arab countries.” At some point, when a dominant Jewish presence had been established in Palestine, and the Palestinians had departed or been marginalized, the British could end their mandate to make room for the emergence of a Jewish state in Palestine.This plan ran into problems. The Palestinians would not cooperate: they refused to leave and very few were willing to sell their lands. As a result, in 1948, the year that Israel was created, nearly all of Palestine’s “penniless population” was still in place and more than 50 years after the launching of political Zionism, the Jewish settlers owned only seven per cent of the lands in Palestine, not the best lands either.

1896 سے ہی یورپ سے یہودی نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنا شروع ہو گئے اور 1897 عیسوی میں فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دو ہزار کے قریب پہنچ گئی ۔ جب کہ مسلمان عربوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زائد تھی ۔1903 عیسوی تک یورپ سے ہزاروں یہودی فلسطین پہنچ گئے اور ان کی تعداد 2500 کے لگ بھگ ہو گئی ۔ 1914 تک مزید چالیس ہزار کے قریب یہودی فلسطین پہنچے ۔

1916 عیسوی میں مصر میں برطانیہ کے کمشنر ہنری مکماہون نے مصر سے عرب فوجی بھرتی کرنے کے لئے وعدہ کیا تھا کہ عربوں کے وہ علاقے جو سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے آزاد کر دیئے جائیں گے ۔ برطانیہ کی عیّاری ملاحظہ ہو کہ اسی زمانہ میں خفیہ معاہدہ سائیکس پیکاٹ کیا گیا جس کی رو سے برطانیہ اور فرانس نے علاقہ کو اپنے مشترکہ انتظام کے تحت تقسیم کر دیا ۔ مزید عیّاری یہ کہ 1917 عیسوی میں برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کی طرف سے لارڈ راتھ شلڈ نامی صیہونی لیڈر کو لکھے گئے ایک خط میں فلسطین کے اندر ایک صیہونی ریاست بنانے کے لئے کام کرنے کا وعدہ کیا ۔ جنگ عظیم کے اختتام پر 1918 عیسوی میں مصر سے بدعہدی کرتے ہوۓ فلسطین پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا ۔ لیگ آف نیشنز نے 25 اپریل 1920 کو فلسطین پر انگریزوں کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا ۔

1918 عیسوی میں فلسطین ميں یورپ سے مزید یہودی آنے کے باعث ان کی تعداد 67000 کے قریب تھی ۔ برطانوی مردم شماری کے مطابق 1922 عیسوی میں فلسطین میں یہودیوں کی آبادی 11 فیصد تک پہنچ گئی تھی یعنی 667500 مسلمان تھے تو 82500 یہودی تھے ۔ 1930 تک برطانوی سرپرستی میں مزید 300000 سے زائد یہودی یورپ اور روس سے فلسطین پہنچائے گئے جس سے عربوں میں بے چینی پیدا ہوئی ۔

اگست 1929 میں یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں میں جھڑپیں ہوئیں جن میں سوا سو کے قریب فلسطینی اور تقریبا اتنے ہی یہودی مارے گئے ان جھڑپوں کی ابتداء صیہونیوں نے کی تھی لیکن برطانوی پولیس نے صیہونیوں کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا ۔ برطانیہ کا رائل کمشن جس کا سربراہ لارڈ پیل تھا نے 1937 عیسوی میں تجویز دی کہ فلسطین کو تقسیم کر کے تیسرا حصہ یہودیوں کو دے دیا جائے ۔ اس وقت فلسطین میں یہودیوں کی زمینی ملکیت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ فلسطینی اس کے خلاف دو سال تک احتجاج کرتے رہے ۔ وہ چاہتے تھے کہ تقسیم نہ کی جائے اور صرف اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔ اس پر برطانیہ سے مزید فوج منگوا کر فلسطینیوں کے احتجاج کو سختی سے کچل دیا گیا ۔ 1939 میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی اور فلسطین کا معاملہ پس منظر میں چلا گیا مگر صیہونیوں نے یورپ سے فلسطین کی طرف نقل مکانی جاری رکھی ۔

Friday, November 18, 2005

Way to Success

* Share your knowledge. It is a way to achieve immortality.

* Judge your success by what you had to give up in order to get it.

* Approach love and cooking with reckless abandon.

Monday, November 14, 2005

بنی اسراءیل اور اسرائیل کی تاریخ

انشاء اللہ بنی اسراءیل کی تاریخ کا صرف خاکہ پیش کر نے کے بعد ریاست اسرائیل کے تاریخی حقائق لکھوں گا جن کی بنیاد ویب پر موجود اور غیرموجود تحاریر کے علاوہ پچھلے 55 سال میں اکٹھی کی ہوئی میری ذاتی معلومات پر ہے ۔ 1932 سے دسمبر 1947 عیسوی تک میرے والد صاحب کے کاروبار کا مرکز فلسطین تھا ۔ ان کی رہائش فلسطین کے ایک شہرطولکرم اور ہیڈ آفس حیفہ میں تھا ۔ والدہ صاحبہ کبھی مصر میں میرے نانا نانی کے پاس یا فلسطین میں والد صاحب کے ساتھ رہتیں کبھی ہندوستان ميں ہمارے ساتھ ۔ میری ایک بڑی بہن 1933 میں قاہرہ (مصر) میں پیدا ہوئی اور ایک چھوٹا بھائی 1947 میں فلسطین میں نابلس کے ہسپتال میں پیدا ہوا ۔ ميں اپنے دادا دادی کے پاس ہندوستان ہی میں رہا ۔

بنی اسراءیل

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام تھے ۔ خانہ کعبہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے آج سے 4000 سال قبل تعمیر کیا تھا البتہ کچھ حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسی جگہ حضرت نوح علیہ السلام نے کعبہ تعمیر کیا تھا ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے فلسطین کے علاقہ بیت المقدّس میں بھی عبادت گاہ بنائی ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام بھی وہاں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ مکّہ مکرمہ میں خانہ کعبہ ہی جاتے تھے ۔

حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے ۔ اسراءیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا ۔ اسراءیل کے معنی ہیں عبداللہ یا خدا کا بندہ ۔ بنی اسراءیل ان کے قبیلہ کو کہا جاتا ہے ۔حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو مصر کے بادشاہ بنے ۔ بنی اسراءیل میں پھر حضرت موسی علیہ السلام مصر میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام صحراۓ سینائی کے علاقہ میں پیدا ہوۓ جو بعد میں فلسطین چلے گئے ۔

جب حضرت داؤد علیہ السلام نے انتہائی طاقتور دیو ہیکل جالوت (گولائتھ) کو اللہ کی نصرت سے غلیل کا پتھر مار کر گرا دیا تو فلسطین کے بادشاہ صول نے حسب وعدہ ان کی شادی اپنی بیٹی مشل سے کر دی ۔ صول کے مرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام فلسطین کے بادشاہ بنے ۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہوا ۔ جن اور ہر قسم کے جانور حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کر دیئے تھے ۔ قبل مسیح 961 سے قبل مسیح 922 کے دوران حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی مدد سے مسجد الاقصی اسی جگہ تعمیر کروائی جہاں حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی ۔
.
586 قبل مسیح میں یہ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ جنوبی علاقہ پر بابل کے لوگوں نے قبضہ کر کے عبادت گاہ مسمار کر دی اور بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا ۔ اس کے سو سال بعد بنی اسراءیل واپس آنے شرو‏ ع ہوئے اور انہوں نے اپنی عبادت گاہ تعمیر کی مگر اس جگہ نہیں جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے عبادت گاہ بنوائی تھی ۔ 333 قبل مسیح میں سکندراعظم نے اسے یونان کی سلطنت میں شامل کر کے بنی اسراءیل کو وہاں سے نکال دیا ۔ 165 قبل مسیح میں بنی اسراءیل نے بغاوت کر کے ایک یہودی سلطنت کی بنیاد رکھی ۔ سوسال بعد یہودی ریاست پر سلطنت روم کا قبضہ ہو گیا ۔ 70 عیسوی میں یہودیوں نے بغاوت کی جسے شہنشاہ ٹائٹس نے کچل دیا اور یہودیوں کی عبادت گاہ مسمار کر کے انہیں وہاں سے نکال دیا ۔ روم کے بادشاہ حیدریاں (138-118 عیسوی) نے یہودیوں کو شروع میں بیت المقدس آنے کی اجازت دی لیکن بغاوت کرنے پر بیت المقدس کے شہر کو مکمل طور پر تباہ کر کے یہودیوں کو غلاموں کے طور بیچ کر شہر بدر کر دیا اور ان کا واپس بیت المقدّس آنا ممنوع قرار دے دیا ۔

614 عیسوی سے 624 عیسوی تک فلسطین پر ایرانیوں کی حکومت رہی جنہوں نے یہودیوں کو عبادت کرنے کی کھلی چھٹی دے دی مگر انہوں نے مسجد الاقصی میں عبادت نہ کی اور عرب عیسائیوں پر بہت ظلم کئے ۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت آئی جس نے 636 عیسوی میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639 عیسوی میں اس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر اسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کروایا تھا ۔ 636 سے 1918 عیسوی تک یعنی 1282 سال فلسطین پر جس میں اردن بھی شامل تھا مسلمانوں کی حکومت رہی سواۓ صلیبی جنگوں کے کچھ عرصہ کے ۔ اس وقت تک یہودیوں کو فلسطین سے باہر ہوۓ 1800 سال ہو چکے تھے ۔

بنی اسراءیل کے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زکریّا علیہ السلام اور حضرت یحی علیہ السلام بھی شامل ہیں ۔ حضرت عیسی علیہ السلام بھی اسی قبیلہ سے تھے ۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے انہیں بچالیا اور ان کا کوئی ہم شکل قتل کر دیا گیا ۔ خلق خدا کو بھی بنی اسراءیل بہت اذیّت پہنچاتے رہے ۔

Sunday, November 13, 2005

مختاراں مائی کا دورہء امریکہ

Thursday, November 10, 2005

Time is Now

The world is full of Sons and Daughters like you and me. I had a marvelous mother who loved me, sacrificed for me and helped me in every way possible. In all of my growing up from childhood through college and eventually marriage, my mother was always at my side.
And when I needed help with my little ones, she was there for me.Today, we buried this wonderful woman. Can you imagine how I felt when I returned from the services and found a poem in her desk drawer written by my mom.


The Time is Now ! ! !
If you are ever going to love,
Love me now while I can know
The sweet and tender feelings which
From true affection flow
Love me now while I am living
Do not wait until I am gone
And then have it chiseled in marble
Sweet words on ice-cold stone

If you have tender thoughts of me
Please let me know now
If you wait until I am sleeping
I won't hear you then
So if you love me even a little bit
Let me know while I am living so that I can treasure it.
Now she is gone and I am sick with guilt because
I never told her what she meant to me.
Worse yet, I did not treat her as she deserved to be.
I found time for everyone and everything
but never made time for her.

It would have been easy to drop in for a cup of tea and a hug
but my friends came first.
Would any of them have done for me
what my mother did, I know the answer.

When I called mom on the phone,
I was always in a hurry.
I feel ashamed when I think of the times I cut her off.
I remember too, the times I could have included her and didn't.

Our children loved Grandma from the times they were babies.
They often turned to her for comfort and advice.
She understood them.
I realize now that I was too critical,
too short-tempered, too stingy with praise.
Grandma gave them unconditional love.
The world is filled with sons, daughters and a child like me.
I hope they see themselves in this letter and realize from it.
(Anonymous)

Wednesday, November 09, 2005

Comment Moderation and An Apology

Four days back, I had installed “comment moderation system” recently introduced by blogger.com. It also provides user-friendly editing of comment before publishing.

Early morning on Monday, I had to leave for Lahore due to death of a relative and came back yesterday after noon. The comments that were written during this period could not be seen by me earlier than yesterday evening. So, inconvenience to any commenter is regretted.

Saturday, November 05, 2005

عید کا دن کیسے گذرا

فجر کی نماز پڑھ کے واپس لوٹا تو اٹلانٹا میں بڑے بیٹے زکرّیا ۔ بہو بیٹی اور پیاری پوتی سے بات کی ۔ پوتی کی زبان ابھی کوڈڈ ہے اس لئے سمجھ نہیں آتی۔ ٹیلیفون کے بعد کپڑے استری کئے کیونکہ ملازم عید کرنے گاؤں چلے گئے تھے پھر غسلخانہ میں نماز عید کی تیاری کے لئے گھس گئے ۔ تیار ہو کر حسب معمول کھجوریں اور سوّیاں کھائیں اور نماز کے لئے چل دیئے ۔ نماز سیکٹر ایف ۔ 8 ہی میں فٹبال گراؤنڈ میں پڑھی ۔ نماز کے بعد سیکٹر ایچ ۔ 11 میں قائم متاءثرین کیمپ میں بچوں میں تحائف تقسیم کرنے جانا تھا مگر میرے دو بھائی فیصل مسجد نماز پڑھنے گئے تھے اور واپسی میں بہت زیادہ تاخیر ہو گئی ۔ پتہ چلا کہ وزیراعظم شوکت عزیز صاحب کی آمد کی خبر کی وجہ سے پرائیویٹ گاڑیوں کو مسجد سے ایک کلومیٹر دور ہی روک دیا گیا ۔ وہاں سے پیدل چلے ۔ پھر میرے بھائی سے کار بند کرنے کا ریموٹ کنٹرول بھی لے لیا گیا ۔ وزیراعظم کی انتظار میں نماز بھی دیر سے پڑھائی گئی مگر وہ تشریف نہ لائے ۔ پتہ چلا کہ وہ سیکٹر ایچ ۔ 11 میں قائم متاءثرین کیمپ چلے گئے ہیں جہاں وہ عید کا دن متاءثرین کے ساتھ گذاریں گے ۔

خیر ہم متاءثرین کے کیمپ گئے اور پہلی دفعہ چاروں طرف نظر دوڑائی تاکہ وہاں تحائف تقسیم کئے جائیں جہاں پہلے تحائف نہ پہنچے ہوں ۔ خیمرں کے شہر میں محلے بنے تھے ۔ ہر محلہ میں ذمہ داری کسی نہ کسی رفاہی ادارہ کی تھی ۔ ہم نے جو علاقہ چنا وہاں اشیاء ضرورت اور کھانا پہنچانے کا بندوبست الرشید ٹرسٹ ۔ جماعت اسلامی کا الخدمت اور الاختر ٹرسٹ کا تھا مگر دور ہونے کی وجہ سے ابھی وہاں شہری تحائف لے کر نہیں پہنچے تھے ۔ سواۓ ایک دو کے وہاں کام کرنے والے سارے ادارے اسلامی تعلیمات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ابھی کئی متاءثرین کھلے آسمان کے نیچے زمین پر بیٹھے تھے ۔

تحائف تقسیم کرنے کے بعد ہم واپسی کی تیاری میں تھے تو چند متاءثرین اور سی ڈی اے کا ایک اہلکار ہمیں الوداع کہنے لگے تو میرے بھائی نے پوچھا کہ صبح وزیراعظم صاحب آئے تھے آپ کے ساتھ عید گذارنے کے لئے وہ کہاں ہیں ؟ جواب ملا کہ وہ آئے تھے اور کسی کے لائے ہوۓ خیموں میں سے ایک دو خیمے وڈیو کیمروں کے سامنے متاءثرین کو دیئے اور چلے گئے ۔

ہم دو بھائی گھر کو واپس ہوۓ ۔ چھوٹا بھائی ڈی ایچ کیو ہسپتال راولپنڈی روانہ ہوا جہاں وہ سرجیکل وارڈ کا انچارج ہے ۔ واپسی پر اس نے بتایا کہ آجکل سارا ہسپتال زخمی متاءثرین سے بھرا ہوا ہے ۔ ان کو کھانا ہسپتال کی بجاۓ رضاکار فرد یا ادارے ہی پہنچا رہے ہیں ۔ عید کے دن دوپہر کا کھانا ہمارے ایک پرانے جاننے والے حیدر صاحب نے دینا تھا ۔ بھائی ڈیڑھ بجے ہسپتال پہنچا تو کھانا ابھی تقسیم نہیں ہوا تھا ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ تحصیل ناظم نے ٹیلیفون کیا تھا کہ میرے آنے تک کھانا تقسیم نہ کیا جاۓ اور اب وہ تشریف لے آۓ ہیں ۔ بھائی نے دیکھا کہ ایک شخص 6 بندوق بردار آدمیوں ۔کئی دوسرے کھڑپینچوں اور وڈیو ٹیم کے ساتھ آ رہا ہے ۔ اس نے آکر حیدر صاحب کی کھانے کے ساتھ لائی ہوئی مٹھائی کے دو تین ڈبے وڈیو کیمرہ کے سامنے متاءثرین کو دیئے اور چلتے بنے ۔

تو جناب یہ ہے ان ڈراموں کی ایک معمولی سی جھلک جو ہمارے حکمران اس بدنصیب قوم کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔

Thursday, November 03, 2005

امدادی کاموں میں افراتفری

آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلے کو تین ہفتے سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک حکومت کی طرف سے کیے جانے والے امدادی کام میں وہ نظم و ضبط نظر نہیں آیا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

پشاور میں بی بی سی کے نامہ نگار رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق امدادی کاموں کو بے یقینی اور افراتفری پہلے دن نظر آرہی تھی وہ اب بھی عیاں ہے۔ نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امدادی کام کو کنٹرول کرنے والے ادارے فوج اور سول انتظامیہ کے مابین رابطے کا فقدان ہے۔

’سول انتظامیہ اور منتخب نمائندوں کا کہنا ہے کہ امدادی کام پر فوج کا قبضہ ہے اور ان پر اس کسی طرح کا اختیار نہیں ہے۔‘

نامہ نگار کے مطابق زلزلہ زدگان کے لیے ہونے والے امدادی کام کی اہم بات یہ ہے کہ غیر ملکی امدادی ادارے اور غیر ملکی ماہرین ریلیف آپریشن پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کی طرف سے کہا جا رہا ہے اگر بروقت امداد نہ پہنچی تو مزید اموات ہوں گی جبکہ دوسری طرف وفاقی حکومت ’سب اچھا ہے‘ کی رٹ لگائے ہوئے ہے۔

نامہ نگار کے مطابق وزیر اعظم یہ کوشش کر رہے ہیں کہ امدادی کام کے سلسلے میں ان کی حکومت کی بدنامی نہ ہو۔
’اس کوشش میں وہ اصل مسائل سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔‘

Tuesday, November 01, 2005

مظفرآباد سے سیّد عدنان علی نقوی لکھتے ہیں

اتوار 31 اکتوبر اور پیر یکم نومبر کی درمیانی رات 12 بجے
اچانک بہت شدید سردی ہوگئی ہے جو ناقابلِ برداشت ہے۔ ہمارے اپنے پاس بھی گرم کپڑوں کی کمی ہوگئی تھی۔ خیمے تو اب مظفرآباد میں خاصے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ گرمی کے موسم میں کیمپنگ کے لئے پکنک ٹائپ خیمے ہیں نہ کہ ان حالات کے لئے، اوپر سے اب ہمیں گرم کپڑوں کی انتہائی قلت کا سامنا ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ پیش آیا کہ ماہ رخ جسے میں نے فرحانہ کہنا شروع کردیا تھا کیونکہ مرگلہ میں میری جو بہن فوت ہوگئی تھی، اس کا نام فرحانہ تھا۔ اس کی حالت رات کو بہت بگڑ گئی۔ اسے مسلسل دورے پڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر کاشان مسلسل اس کے ہمراہ تھے، میں نے ان سے کہا بھی کہ وہ تھوڑا سا آرام کرلیں لیکن وہ مسلسل اس کے پاس رہے۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ اس ڈائری پر موجود میرے فون نمبر کے ذریعے رابطہ کرنے والے کچھ دوستوں نے جرمنی اور بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک سے فوری طور پر لائف سیونگ ڈرگز کی ایک بڑی مقدار ہمیں بھجوا دی ہے جو ہمیں ابھی مل گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمارے گروپ کے لئے ہفتہ بھر تک کافی رہے گی۔

پیر ۔ 31 اکتوبر صبح 9 بجے
صبح چھ بجے سے لیکر نو بجے کے دوران ہم نے صرف ادویات کی چھانٹ کی کہ کون سی ادویات ہمیں اپنے ساتھ اوپر کے مشنز پر درکار ہوں گی اور کون سی یہیں محفوظ کر لی جائیں۔ نو بجے کے قریب ہم نے مقامی لوگوں سے درخواست کی کہ ہمیں کچھ ایسے گرم کپڑے دیں جو ہم اوپر اپنے ساتھ لے جاسکیں کیونکہ وہاں سردی ناقابلِ برداشت ہے۔ بہت خوشی ہوئی کہ لوگوں نے اپنے ان کپڑوں میں سے جو انہیں امداد کی صورت میں ملے تھے، کچھ ہمارے حوالے کردیئے۔ ہم نے کچھ رضاکار اسلام آباد بھیج دیئے ہیں کہ وہ فوری طور جائیں اور گرم کپڑے خریدنے کا بندوبست کریں۔ ہم نے این جی اوز اور خاص طور یونسیف سے بھی یہی درخواست کی ہے کیونکہ پچھلی بار جب ہم اوپر گئے تھے تو ہم نے بچوں کے تن پر کوئی گرم کپڑا نہیں دیکھا تھا۔ ہمیں آزاد کشمیر اور پاکستان دونوں حکومتوں نے اس پر جلد از جلد ایکشن لینے کا وعدہ کیا ہے۔ ماہ رخ کی حالت خاصی بگڑ گئی ہے اور مجھے سخت پریشانی ہے، ہر وقت دعائیں مانگتا رہتا ہوں۔ ڈاکٹر کاشان اس کے پاس سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، مجھے ان کی بھی فکر ہے۔

پیر ۔ 31 اکتوبر صبح 10 بجے
صبح ہم ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے دریائے نیلم کے کنارے ایک جگہ اٹھ مقام پر پہنچے۔ یہاں پہنچتے ہی ہمیں لوگوں کے سوالات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں کو اس بات پر غصہ ہے کہ آخر لوگ ہمیں کیوں بھول گئے ہیں۔ زلزلے کے بعد سے صرف ایک بار وہاں ہیلی کاپٹر اترا ہے، مختصر سی امداد تقسیم کی اور اگلی بار لوٹنے کا وعدہ کرکے پھر نہیں آیا۔ وہاں پر بھی سب سے برا حال چھوٹے بچوں کا ہی تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم نے، ہماری حکومت نے اور دنیا نے انہیں توجہ نہ دی تو کشمیر کا آنے والا کل بھی تاریک ہی ہوگا۔ جنہیں زلزلے نے زاردیا یا زخمی کردیا ہے، وہ تو ہیں ہی ہیں لیکن جو بچ گئے ہیں، وہ اب سردی کا شکار ہورہے ہیں۔ اب مزید دیر کرنا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔ یہاں سے ہم نے بیس بچے مظفرآباد منتقل کئے جن میں سے بارہ شدید زخمی تھے، دو کو ٹیٹنس ہوچکا تھا اور باقیوں کے زخم خراب ہوچکے تھے۔ آٹھ مردوں اور بارہ کے قریب خواتین کو منتقل کیا جن میں سے کچھ حاملہ تھیں۔ یہاں غذا کی قلت ہے جو ان علاقوں میں ہر طرف ایک اور بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

پیر ۔ 31 اکتوبر سہ پہر 3 بجے
ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مقامی حکام سے ملیں گے اور ان کی توجہ اٹھ مقام اور اسی طرح کے آس پاس کے علاقوں کی طرف دلائیں گے۔ ہم ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک جگہ پر ایک بار جاکر پھر اسے بھول نہ جائیں۔ ہم نے اسلام آباد میں بھی اپنے رضاکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ وزیرِ اعظم کے سیکریٹیریٹ میں جایئں، اعلیٰ حکام سے ملیں اور اصرار کریں کہ امدادی کام کو زیادہ تیزی کے ساتھ زیادہ جہوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا اگلے چند گھنٹے اسی مصروفیت میں ہی گزر ے۔ ماہ رخ کی حالت پر میری پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔

پیر ۔ 31 اکتوبر شام 7 بجے
شام چھ بج کر پچپن منٹ پر ڈاکٹر کاشان نے مجھے بلایا، ماہ رخ کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ آج ہم نے پروگرام بنایا تھا کہ ہم خود کھانا بنائیں گے اور مل بیٹھ کر کھائیں گے لیکن سات بج کر پانچ منٹ ڈاکٹر کاشان نے مجھے دوبارہ بلایا اور جب ہم وہاں پہنچے تو وہ بچی ہمارے درمیان موجود نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ دیر پھر ہوگئی۔۔۔۔ ایک اور بچی ہمارے ہاتھ سے چلی گئی۔ میں جو سامان اپنے ساتھ لایا ہوں، اس میں کفن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ۔۔۔ہمیں، بہت مشکل ہورہی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے سنبھالے ہوئے ان بچوں کو مرتا دیکھ رہے، بہت زیادہ مشکل ہورہی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے ہم نے اس بچی کو لحد میں اتارا ہے۔ ۔۔۔۔

پیر ۔ 31 اکتوبر رات 9 بجے
حالات بہت خراب ہیں۔ ایک چیز قابو میں آتی ہے تو دوسری قابو سے باہر ہوجاتی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے لوگ ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ہم نے ابھی فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم مزید انتظار نہیں کرسکتے۔ جن علاقوں تک نہیں پہنچا جا سکتا، ہم ان کا رونا رو کر وہاں جانے سے گریز نہیں کر سکتے، اب ہم ان علاقوں کی طرف جا رہے ہیں، آج ہی رات۔ ہم نے پیکنگ شروع کر دی ہے۔ وہاں بہت سے بچے ہیں جنہیں ہماری ضرورت ہے۔

میں یہاں ایک اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اب رکنے کا وقت کا نہیں ہے۔ میں ہاتھ جوڑ کر حکومت سے کہتا ہوں کہ اب مزید وقت ضائع نہ کریں۔۔۔۔ ورنہ ہمارا یہی کام رہ جائے گا کہ ہم ہی میں سے کوئی قبر کھود رہا ہوگا تو دوسرا ان بچوں کو ان میں لٹا رہا ہوگا۔ اس بچی کی موت نے مجھے جھنجھوڑ دیا ہے، ہمیں وہ سب کرنا ہوگا جو ممکن ہے، آپ اسے خودکشی کہیں یا جو کچھ لیکن اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ موسم ابھی ٹھیک نہیں ہے لیکن ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔

بہت سے دوستوں نے خود اور بی بی سی کے ذریعے رابطہ کیا ہے، ان سب سے میری درخواست ہے جلد از جلد پہنچیں۔ میں نہ ملوں تو اپنے طور پر کام شروع کردیں لیکن جلدی کریں۔

میں اپنی ماما کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں، میں ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن رابطہ نہیں ہوپا رہا، امی آپ مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے گا، مجھے آگے جانا ہے، اگر آپ کا یہ بیٹا بھی کسی مشکل کا شکار ہوتا ہے تو ہمت مت ہاریئے گا۔ آپ نے مجھے بہت حوصلہ دیا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ سے رابطہ برقرار رہے، کیونکہ آگے کا میں نہیں کہہ سکتا کہ وہاں ہمارا موبائل کام کرے گا یا نہیں۔ لیکن کسی نہ کسی طرح میں اپنی خبر پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ خدا حافظ