عید کا دن کیسے گذرا
خیر ہم متاءثرین کے کیمپ گئے اور پہلی دفعہ چاروں طرف نظر دوڑائی تاکہ وہاں تحائف تقسیم کئے جائیں جہاں پہلے تحائف نہ پہنچے ہوں ۔ خیمرں کے شہر میں محلے بنے تھے ۔ ہر محلہ میں ذمہ داری کسی نہ کسی رفاہی ادارہ کی تھی ۔ ہم نے جو علاقہ چنا وہاں اشیاء ضرورت اور کھانا پہنچانے کا بندوبست الرشید ٹرسٹ ۔ جماعت اسلامی کا الخدمت اور الاختر ٹرسٹ کا تھا مگر دور ہونے کی وجہ سے ابھی وہاں شہری تحائف لے کر نہیں پہنچے تھے ۔ سواۓ ایک دو کے وہاں کام کرنے والے سارے ادارے اسلامی تعلیمات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ابھی کئی متاءثرین کھلے آسمان کے نیچے زمین پر بیٹھے تھے ۔
تحائف تقسیم کرنے کے بعد ہم واپسی کی تیاری میں تھے تو چند متاءثرین اور سی ڈی اے کا ایک اہلکار ہمیں الوداع کہنے لگے تو میرے بھائی نے پوچھا کہ صبح وزیراعظم صاحب آئے تھے آپ کے ساتھ عید گذارنے کے لئے وہ کہاں ہیں ؟ جواب ملا کہ وہ آئے تھے اور کسی کے لائے ہوۓ خیموں میں سے ایک دو خیمے وڈیو کیمروں کے سامنے متاءثرین کو دیئے اور چلے گئے ۔
ہم دو بھائی گھر کو واپس ہوۓ ۔ چھوٹا بھائی ڈی ایچ کیو ہسپتال راولپنڈی روانہ ہوا جہاں وہ سرجیکل وارڈ کا انچارج ہے ۔ واپسی پر اس نے بتایا کہ آجکل سارا ہسپتال زخمی متاءثرین سے بھرا ہوا ہے ۔ ان کو کھانا ہسپتال کی بجاۓ رضاکار فرد یا ادارے ہی پہنچا رہے ہیں ۔ عید کے دن دوپہر کا کھانا ہمارے ایک پرانے جاننے والے حیدر صاحب نے دینا تھا ۔ بھائی ڈیڑھ بجے ہسپتال پہنچا تو کھانا ابھی تقسیم نہیں ہوا تھا ۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ تحصیل ناظم نے ٹیلیفون کیا تھا کہ میرے آنے تک کھانا تقسیم نہ کیا جاۓ اور اب وہ تشریف لے آۓ ہیں ۔ بھائی نے دیکھا کہ ایک شخص 6 بندوق بردار آدمیوں ۔کئی دوسرے کھڑپینچوں اور وڈیو ٹیم کے ساتھ آ رہا ہے ۔ اس نے آکر حیدر صاحب کی کھانے کے ساتھ لائی ہوئی مٹھائی کے دو تین ڈبے وڈیو کیمرہ کے سامنے متاءثرین کو دیئے اور چلتے بنے ۔
تو جناب یہ ہے ان ڈراموں کی ایک معمولی سی جھلک جو ہمارے حکمران اس بدنصیب قوم کے ساتھ کھیل رہے ہیں ۔
13 Comments:
At 4:55 pm, Anonymous said…
اجمل صاحب ہمارا تو شروع ہي سے يہ خيال ہے کہ موجودہ حکمرانوں کي نيتيں ٹھيک نہيں مگر کيا کريں لوگ جب تنقيد براۓ تنقيد کا طعنہ ديتے ہيں تو چپ ہو جاتے ہيں۔
جب کبھي اچھا حکمران آيا تو پہلے دن سے ہي پہچانا جاۓ گا۔ اصل ميں ہم بحيثيت قوم ہي خود غرض ہيں اور صرف اپنے پيٹ کي پوجا کرنا جانتے ہيں۔
At 12:13 am, Shaper said…
وزیراعظم والی آپ کی بات ذہن قبول نہیں کررہا کیونکہ میرا نہیں خیال میڈیا ان باتوں کو آسانی سے ہضم کرسکتا ہے ۔۔۔ بی بی سی ضرور اس خبر کو اپنی ویب سائٹ کی زینت بناتا ۔۔۔ معافی چاہتاہوں پر اجمل انکل اپکی پوسٹیں یکطرفہ ہوتی ہیں بلخصوص جب آپ جہادی تنظیموں کی بات کرتے ہیں ۔۔ ایسے موقعوں پر آپ کو اپنے سورس کے نیوٹرل لنکس دینے چاہیے
At 8:42 am, افتخار اجمل بھوپال said…
Mr Anonymous
آپ نے دونوں باتیں ٹھیک لکھی ہیں ۔ بہر صورت ہمیں بہتری کی کوشش کرنا چاہیئے اور وہ صرف اپنے کردار اور عمل سے ممکن ہے
At 8:49 am, خاور کھوکھر said…
بونے ـ چهوٹے لوگ
كيا خيال هے اپكا بونوں كا ديس اس ديس ميں ايكـ بهى شخصيت اس قد كاٹهـ كى نهيں هے كه دنيا كى قد آور شخصيات كے ساتهـ كے مقابل كهڑا كيا جاسكےـ
دوسروں كے كئے هوئے كاموں په كهڑا هو كر اپنا قد بڑهانے والے يه هىلوگ تو نيچ لوگ هيں ـ
جس كے نام كے ساتهـ سانسى ـچمار ـ يا چنگڑ لكها جائے وه نيچ نهيں ـ نيچ وه هے جو نيچ كام كرے ـ
سر گنگا رام هسپتال كا هندوانه نام بدل مشرف اسلام كرنے كى تجويزيں دينے والے لوگ ،،،،،ـ
كميار كو شرم آتى هے كه حكمران كمينے هيں ـ
At 8:56 am, خاور کھوکھر said…
بونے ـ چهوٹے لوگ
كيا خيال هے اپكا بونوں كا ديس اس ديس ميں ايكـ بهى شخصيت اس قد كاٹهـ كى نهيں هے كه دنيا كى قد آور شخصيات كے ساتهـ كے مقابل كهڑا كيا جاسكےـ
دوسروں كے كئے هوئے كاموں په كهڑا هو كر اپنا قد بڑهانے والے يه هىلوگ تو نيچ لوگ هيں ـ
جس كے نام كے ساتهـ سانسى ـچمار ـ يا چنگڑ لكها جائے وه نيچ نهيں ـ نيچ وه هے جو نيچ كام كرے ـ
سر گنگا رام هسپتال كا هندوانه نام بدل مشرف اسلام كرنے كى تجويزيں دينے والے لوگ ،،،،،ـ
كميار كو شرم آتى هے كه حكمران كمينے هيں ـ
At 1:00 pm, Unknown said…
اسلام علیکم جناب اجمل حاحب
آٹھ اکتوبر کو پاکستان اور بھارت میں آنے والے شدید زلزلے میں ہلاک ہونے والے کم و بیش ڈیڑھ لاکھ ہلاک شدگان پر دونوں ممالک سیاست کے مقبرے تعمیر کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ سیاست کھلے بندوں دیکھنے میں آئی ہے جہاں زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی ایک ایک لاش پرسیاست کی گئی۔حکومتی اداروں نے فوجیوں کے فراہم کردہ اعدادوشمار میڈیا کو دیئے جن کو میڈیا نے نا قابل تسلیم کہا ہے۔ حکومت کے کسی بھی ادارے کے پاس متاثرہ افراد کی بھلائی میں کرنے کو کچھ نہیں تھا جو بھی تھا وہ فوج کے ہاتھ میں تھاجس کی وجہ سے نہ صرف ہلاکتوں میں اضافہ ہوا بلکہ اب بیرونی امداد میں کمی کی وجہ بھی یہی ہے۔
At 1:01 pm, Unknown said…
اسلام علیکم جناب اجمل حاحب
آٹھ اکتوبر کو پاکستان اور بھارت میں آنے والے شدید زلزلے میں ہلاک ہونے والے کم و بیش ڈیڑھ لاکھ ہلاک شدگان پر دونوں ممالک سیاست کے مقبرے تعمیر کرتے رہے اور کر رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ سیاست کھلے بندوں دیکھنے میں آئی ہے جہاں زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی ایک ایک لاش پرسیاست کی گئی۔حکومتی اداروں نے فوجیوں کے فراہم کردہ اعدادوشمار میڈیا کو دیئے جن کو میڈیا نے نا قابل تسلیم کہا ہے۔ حکومت کے کسی بھی ادارے کے پاس متاثرہ افراد کی بھلائی میں کرنے کو کچھ نہیں تھا جو بھی تھا وہ فوج کے ہاتھ میں تھاجس کی وجہ سے نہ صرف ہلاکتوں میں اضافہ ہوا بلکہ اب بیرونی امداد میں کمی کی وجہ بھی یہی ہے۔
At 12:47 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
شبیر صاحب
وزیراعظم والی بات کو ذہن کا قبول کرنا ایک الگ بات ہے ۔ میں نے جو اپنے کانوں سے موقع پر سنا لکھ دیا ۔ بہرصورت ایک حقیت تو واضح ہے کہ وزیراعظم نے عید کا دن وہاں نہیں گذارہ اور صرف تھوڑا سا وقت وہاں رہے ۔ ہم وہاں صبح ساڑھے نو بجے پہنچ گئے تھے ۔ بیس منٹ راستہ میں لگے تھے ۔ راستہ ایک ہی ہے ۔ ہمیں وزیراعظم کے کوئی آثار جاتے ہوۓ بھی نظر نہ آۓ تھے ۔
دوسری بات میری پوسٹس یک طرفہ ہونے کی ہے تو جناب عالی ہر شخص کے اپنے دوست ۔ احباب اور ذرائع ہوتے ہیں جن پر اسے اعتماد ہوتا ہے ۔ سو ظاہر ہے کہ ہر شخص واقعات کا بیان یک طرفہ ہی کرے گا ۔ ویسے بھی میں نے آج تک خبر یا واقع کا کوئی ذریعہ ایسا نہیں دیکھا جو یک طرفہ نہ ہو ۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خبر غلط ہے ۔ ایک نوازش آپ کیجئے کہ میری تعلیم کے لئے نیوٹرل سورسز کے نام پتے اور یو آر ایل بتا دیجئے ۔
ایک اور بات بھی بتا دیجئے کہ جہادی تنظیمیں کیا ہوتی ہیں ؟
At 1:02 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
خاور صاحب
مجھے آپ سے اتفاق ہے
منیر احد طاہر صاحب
یہ ہماری قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہمارے حکمران اس وقت بھی صرف سیاست ہی چمکارہے ہيں
At 3:43 am, Anonymous said…
انکل اجمل میں نے اپنے بلاگ پر آپ کے سوال کا جواب دینے کی کوشیش کی ہے پر جواب ابھی جاری ہے
At 3:07 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
شبّیر صاحب
میرا تبصرہ اپنے بلاگ پر پڑھ لیجئے
At 1:09 am, Anonymous said…
If u know Mulana Yusuf Islahi Sahab from India (currently residing in New York & doing Islamic work); he mentioned in his dars that "today in this world every one has a fear of everything except the fear of Qiyamah & I swear to Allah (in masjid) that if this fear is born in the hearts this world would be a better place"
May Allah guide us all ILLAHI AMEEN
At 11:07 am, افتخار اجمل بھوپال said…
Mr Comicsans
I have heard of Maulana Yusuf Islahi and, perhaps, read one of his articles some years back. He has said the whole in one word. A person who believes in the life hereafter is a God-fearing person.
Post a Comment
<< Home