. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Tuesday, November 01, 2005

مظفرآباد سے سیّد عدنان علی نقوی لکھتے ہیں

اتوار 31 اکتوبر اور پیر یکم نومبر کی درمیانی رات 12 بجے
اچانک بہت شدید سردی ہوگئی ہے جو ناقابلِ برداشت ہے۔ ہمارے اپنے پاس بھی گرم کپڑوں کی کمی ہوگئی تھی۔ خیمے تو اب مظفرآباد میں خاصے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ گرمی کے موسم میں کیمپنگ کے لئے پکنک ٹائپ خیمے ہیں نہ کہ ان حالات کے لئے، اوپر سے اب ہمیں گرم کپڑوں کی انتہائی قلت کا سامنا ہے۔

ایک اور مسئلہ یہ پیش آیا کہ ماہ رخ جسے میں نے فرحانہ کہنا شروع کردیا تھا کیونکہ مرگلہ میں میری جو بہن فوت ہوگئی تھی، اس کا نام فرحانہ تھا۔ اس کی حالت رات کو بہت بگڑ گئی۔ اسے مسلسل دورے پڑ رہے تھے۔ ڈاکٹر کاشان مسلسل اس کے ہمراہ تھے، میں نے ان سے کہا بھی کہ وہ تھوڑا سا آرام کرلیں لیکن وہ مسلسل اس کے پاس رہے۔ ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ اس ڈائری پر موجود میرے فون نمبر کے ذریعے رابطہ کرنے والے کچھ دوستوں نے جرمنی اور بیرونِ ملک اور اندرونِ ملک سے فوری طور پر لائف سیونگ ڈرگز کی ایک بڑی مقدار ہمیں بھجوا دی ہے جو ہمیں ابھی مل گئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمارے گروپ کے لئے ہفتہ بھر تک کافی رہے گی۔

پیر ۔ 31 اکتوبر صبح 9 بجے
صبح چھ بجے سے لیکر نو بجے کے دوران ہم نے صرف ادویات کی چھانٹ کی کہ کون سی ادویات ہمیں اپنے ساتھ اوپر کے مشنز پر درکار ہوں گی اور کون سی یہیں محفوظ کر لی جائیں۔ نو بجے کے قریب ہم نے مقامی لوگوں سے درخواست کی کہ ہمیں کچھ ایسے گرم کپڑے دیں جو ہم اوپر اپنے ساتھ لے جاسکیں کیونکہ وہاں سردی ناقابلِ برداشت ہے۔ بہت خوشی ہوئی کہ لوگوں نے اپنے ان کپڑوں میں سے جو انہیں امداد کی صورت میں ملے تھے، کچھ ہمارے حوالے کردیئے۔ ہم نے کچھ رضاکار اسلام آباد بھیج دیئے ہیں کہ وہ فوری طور جائیں اور گرم کپڑے خریدنے کا بندوبست کریں۔ ہم نے این جی اوز اور خاص طور یونسیف سے بھی یہی درخواست کی ہے کیونکہ پچھلی بار جب ہم اوپر گئے تھے تو ہم نے بچوں کے تن پر کوئی گرم کپڑا نہیں دیکھا تھا۔ ہمیں آزاد کشمیر اور پاکستان دونوں حکومتوں نے اس پر جلد از جلد ایکشن لینے کا وعدہ کیا ہے۔ ماہ رخ کی حالت خاصی بگڑ گئی ہے اور مجھے سخت پریشانی ہے، ہر وقت دعائیں مانگتا رہتا ہوں۔ ڈاکٹر کاشان اس کے پاس سے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، مجھے ان کی بھی فکر ہے۔

پیر ۔ 31 اکتوبر صبح 10 بجے
صبح ہم ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے دریائے نیلم کے کنارے ایک جگہ اٹھ مقام پر پہنچے۔ یہاں پہنچتے ہی ہمیں لوگوں کے سوالات کی بوچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں کو اس بات پر غصہ ہے کہ آخر لوگ ہمیں کیوں بھول گئے ہیں۔ زلزلے کے بعد سے صرف ایک بار وہاں ہیلی کاپٹر اترا ہے، مختصر سی امداد تقسیم کی اور اگلی بار لوٹنے کا وعدہ کرکے پھر نہیں آیا۔ وہاں پر بھی سب سے برا حال چھوٹے بچوں کا ہی تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم نے، ہماری حکومت نے اور دنیا نے انہیں توجہ نہ دی تو کشمیر کا آنے والا کل بھی تاریک ہی ہوگا۔ جنہیں زلزلے نے زاردیا یا زخمی کردیا ہے، وہ تو ہیں ہی ہیں لیکن جو بچ گئے ہیں، وہ اب سردی کا شکار ہورہے ہیں۔ اب مزید دیر کرنا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔ یہاں سے ہم نے بیس بچے مظفرآباد منتقل کئے جن میں سے بارہ شدید زخمی تھے، دو کو ٹیٹنس ہوچکا تھا اور باقیوں کے زخم خراب ہوچکے تھے۔ آٹھ مردوں اور بارہ کے قریب خواتین کو منتقل کیا جن میں سے کچھ حاملہ تھیں۔ یہاں غذا کی قلت ہے جو ان علاقوں میں ہر طرف ایک اور بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

پیر ۔ 31 اکتوبر سہ پہر 3 بجے
ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مقامی حکام سے ملیں گے اور ان کی توجہ اٹھ مقام اور اسی طرح کے آس پاس کے علاقوں کی طرف دلائیں گے۔ ہم ان سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک جگہ پر ایک بار جاکر پھر اسے بھول نہ جائیں۔ ہم نے اسلام آباد میں بھی اپنے رضاکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ وزیرِ اعظم کے سیکریٹیریٹ میں جایئں، اعلیٰ حکام سے ملیں اور اصرار کریں کہ امدادی کام کو زیادہ تیزی کے ساتھ زیادہ جہوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا اگلے چند گھنٹے اسی مصروفیت میں ہی گزر ے۔ ماہ رخ کی حالت پر میری پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔

پیر ۔ 31 اکتوبر شام 7 بجے
شام چھ بج کر پچپن منٹ پر ڈاکٹر کاشان نے مجھے بلایا، ماہ رخ کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔ آج ہم نے پروگرام بنایا تھا کہ ہم خود کھانا بنائیں گے اور مل بیٹھ کر کھائیں گے لیکن سات بج کر پانچ منٹ ڈاکٹر کاشان نے مجھے دوبارہ بلایا اور جب ہم وہاں پہنچے تو وہ بچی ہمارے درمیان موجود نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ دیر پھر ہوگئی۔۔۔۔ ایک اور بچی ہمارے ہاتھ سے چلی گئی۔ میں جو سامان اپنے ساتھ لایا ہوں، اس میں کفن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ۔۔۔ہمیں، بہت مشکل ہورہی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے سنبھالے ہوئے ان بچوں کو مرتا دیکھ رہے، بہت زیادہ مشکل ہورہی ہے۔ اپنے ہاتھوں سے ہم نے اس بچی کو لحد میں اتارا ہے۔ ۔۔۔۔

پیر ۔ 31 اکتوبر رات 9 بجے
حالات بہت خراب ہیں۔ ایک چیز قابو میں آتی ہے تو دوسری قابو سے باہر ہوجاتی ہے۔ ان حالات کی وجہ سے لوگ ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں۔ ہم نے ابھی فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم مزید انتظار نہیں کرسکتے۔ جن علاقوں تک نہیں پہنچا جا سکتا، ہم ان کا رونا رو کر وہاں جانے سے گریز نہیں کر سکتے، اب ہم ان علاقوں کی طرف جا رہے ہیں، آج ہی رات۔ ہم نے پیکنگ شروع کر دی ہے۔ وہاں بہت سے بچے ہیں جنہیں ہماری ضرورت ہے۔

میں یہاں ایک اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ اب رکنے کا وقت کا نہیں ہے۔ میں ہاتھ جوڑ کر حکومت سے کہتا ہوں کہ اب مزید وقت ضائع نہ کریں۔۔۔۔ ورنہ ہمارا یہی کام رہ جائے گا کہ ہم ہی میں سے کوئی قبر کھود رہا ہوگا تو دوسرا ان بچوں کو ان میں لٹا رہا ہوگا۔ اس بچی کی موت نے مجھے جھنجھوڑ دیا ہے، ہمیں وہ سب کرنا ہوگا جو ممکن ہے، آپ اسے خودکشی کہیں یا جو کچھ لیکن اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ موسم ابھی ٹھیک نہیں ہے لیکن ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔

بہت سے دوستوں نے خود اور بی بی سی کے ذریعے رابطہ کیا ہے، ان سب سے میری درخواست ہے جلد از جلد پہنچیں۔ میں نہ ملوں تو اپنے طور پر کام شروع کردیں لیکن جلدی کریں۔

میں اپنی ماما کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں، میں ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن رابطہ نہیں ہوپا رہا، امی آپ مجھے دعاؤں میں یاد رکھئے گا، مجھے آگے جانا ہے، اگر آپ کا یہ بیٹا بھی کسی مشکل کا شکار ہوتا ہے تو ہمت مت ہاریئے گا۔ آپ نے مجھے بہت حوصلہ دیا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ آپ سے رابطہ برقرار رہے، کیونکہ آگے کا میں نہیں کہہ سکتا کہ وہاں ہمارا موبائل کام کرے گا یا نہیں۔ لیکن کسی نہ کسی طرح میں اپنی خبر پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ خدا حافظ

0 Comments:

Post a Comment

<< Home