کرتے ہیں مجبور مجھے
میرے خیال میں جو لوگ "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" میں یقین رکھتے ہیں ان کا علاج صرف لاٹھی ہی سے ہو سکتا ہے ۔ کم از کم قدیر احمد رانا صاحب اور اسماء کریم مرزا صاحبہ ضرور میری تائید کریں گی ۔ سنیئے ذرا غور سے ۔ او ہاں ۔ ایک منٹ ۔ اصل موضوع بعد میں ۔ مجھے یاد آیا جب ہم سکول میں پڑھتے تھے اس زمانہ میں راولپنڈی کارپوریشن کا ایک منادیہ ہوا کرتا تھا ۔ وہ کارپوریشن کے احکامات بذریعہ منادی عوام تک پہنچایا کرتا تھا ۔ اس کے پاس ٹینس کا ایک ریکٹ ہوتا تھا جس پر چمڑا چڑھا ہوتا تھا اور مخالف سمتوں میں دو ڈوریوں کے ساتھ لکڑی کے منکے لگے ہوتے تھے ۔ وہ ریکٹ کو بطور ڈگڈگی بجاتا اور کہتا " سنیئے جناب والا ۔ کیا کہتا ہے منادی والا ۔ منادی سنیئے غور سے ۔ پھر بات کیجئے کسی اور سے" اس کے بعد وہ حکمنامہ پڑھ کر سناتا ۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا ۔
حال ہی میں ایک برطانوی تاریخ دان ڈیوڈ ارونگ (David Irving) کو آسٹریا میں گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ اس کے وارنٹ گرفتاری 1989 میں جاری ہوۓ تھے ۔ اس کا جرم یہ ہے کہ اس نے ویانا میں لیکچر دیا تھا جس میں اس نے دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کی نازیوں کے ہاتھوں گیس چیمبرز کے ذریعہ موت کے واقعہ کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا تھا اور کہا تھا کہ مرنے والے یہودیوں کی تعداد انتہائی مبالغہ آمیز ہے ۔ اس نے نام نہاد ہالوکاسٹ (Holocaust) کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا تھا ۔ ڈیوڈ ارونگ کے لیکچر کی بنیاد ایک امریکن فریڈ لاؤخر (Fred Leucher) کی 1988 میں چھپنے والی رپورٹ ہے جو اس نے آؤش وٹس (Auschwitz) میں طویل تحقیق کے بعد لکھی تھی ۔ آؤش وٹس وہی جگہ ہے جہاں گیس چیمبرز کی موجودگی بیان کی گئی تھی ۔
اگر ڈیوڈ ارونگ پر گیس چیمبرز یا ہالوکاسٹ سے انکار کا جرم ثابت کر دیا گیا تو اسے 10 سے 20 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے ۔ امریکہ کے صدر نے خود ایک بڑا جھوٹ ایجاد کیا اور اس کا سہارا لے کر عراق کی تہس نہس پھیر دی ۔
ایک ڈیوڈ ارونگ ہے کہ کسی اور پر لگاۓ گئے جرم کے الزام کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو اسے مجرم کہہ کر جیل میں ڈالا جا رہا ہے اور ایک امریکہ کا صدر ہے جس کے متعلق ساری دنیا جانتی ہے کہ اس نے خود سے ایک جھوٹ گھڑا پھر اسی جھوٹ کے سہارے بلا جواز عراق پر حملہ کیا اور مزید جرم پر جرم کرتا جا رہا ہے اور اسے ابھی بھی ہیومن رائٹس کا چمپین (champion of human rights) کہا جاتا ہے ۔
۔
کیا یہ منافقت کی انتہاء نہیں ؟
21 Comments:
At 8:32 am, Anonymous said…
کیا آپ کے خیال میں نازیوں نے چھ ملین یہودیوں کو نہیں مارا تھا؟ اگر یہ genocide نہیں تو اور کیا ہے؟ David Irving اس قتل عام سے منکر ہے۔ مجھے اس سے کوئی ہمدردی نہیں۔ یہ خیال رہے کہ اسے آسٹریا میں گرفتار کیا گیا ہے نہ کہ برطانیہ میں حالانکہ وہ برطانوی ہے۔ اس کی وجہ آسٹریا اور جرمنی کا نازی ماضی ہے۔ ناززم کے خلاف قانون وہیں پائے جاتے ہیں۔
At 9:42 am, افتخار اجمل بھوپال said…
زکریا بیٹے
معاملہ سچ اور جھوٹ کا نہیں ۔ ایک آدمی ایک بات کو غلط سمجھتا ہے تو اسے غلط سمجھنے کی بنیاد پر سزا دی جاۓ ۔ دوسری طرف ایک آدمی کا جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے اور اسے کوئی جھوٹا نہ کہے ۔
جہاں تک ہالو کاسٹ کا تعلق ہے طالب علمی کے زمانہ میں جو کچھ میں نے پڑھا اس کے مطابق جس جگہ چھ ملین یہودیوں کے رکھنے کا ذکر ہے وہاں اگر انہیں بنڈل بنا کر رکھا جاتا تو بھی ایک ملین انسان نہیں سما سکتے تھے اور کہاں چھ ملین جیتے جاگتے انسان ۔
افغانستان میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں انسان اتحادی فوجوں نے کنٹینروں میں پیک کرکے مار دیئے ۔ قلعہ جنگی میں ہاتھ پاؤں بندھے ہوۓ ہزاروں قیدیوں پر آگ کے بم برسا کر انہیں بھسم کر دیا گیا ۔ کیا یہ بھی جرم نہیں ؟ اور ایک آدمی صرف یہ کہتا ہے کہ فلاں واقع بعید از قیاس ہے تو وہ جرم ہے ۔
یہ منافقت نہیں ہے تو اور کیا ہے ؟
At 10:09 am, Anonymous said…
کیا یہی منافقت بہت سے مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی جب وہ ہالوکاسٹ، تقسیم ہند کے وقت ہندوؤں اور سکھوں کے قتل، ایسٹ تمور میں انڈونیشیا کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی وغیرہ کو ماننے سے مکمل انکار کرتے ہیں؟ یا عراق میں امریکہ کی غلطیاں تو انہیں نظر آتی ہیں مگر وہاں جو مسلمان مسلمان کو مار رہا ہے اسے وہ ماننے سے انکار کر دیتے ہیں؟
اگر چھ ملین یہودی ہالوکاسٹ میں نہیں مرے تو وہ کدھر گئے؟ آسمان کھا گیا انہیں؟
At 11:27 am, افتخار اجمل بھوپال said…
زکریا بیٹے
یہ ایک فضول بحث ہے ۔ نہ آپ کے پاس مستند غیرجانبدارانہ ثبوت ہے نہ میرے پاس ۔ میرے علم میں جو باتیں ہیں وہ لکھ رہا ہوں ۔ آپ کا علم ہو سکتا ہے مجھ سے زیادہ ہو ۔
آپ 1947 میں ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کو ہندوؤں اور سکھوں کا قتل عام قرار دے رہے ہیں ۔ آپ اگر تمام مسلمانوں کو ناحق اور تمام غیرمسلموں کو برحق سمجھتے ہیں تو پھر میں بھی ان جھوٹوں میں شامل ہوں ۔
At 9:03 pm, Anonymous said…
افتخار اجمل صاحب،
میری ناقص رائے میں مسلمانوں کو اور خاص طور پر تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو ماضی کی نہ معلومات ھے نہ ھی جاننے کی چاہت، لہٰذا آپ کا یہ بلاگ انکے لئے فضول ھے۔
میں اپنے قریبی ٤ اعلٰی تعلیم یافتہ لوگوں سے ایسے ھی مجروح ھوا ھوں۔
ان سے جب کہا جائے کہ مسلمانوں پر یہ ظلم ھوا تو کہتا ھیں ان سے بچے کیوں نہیں؟ جیسے کشمیر، فلسطین، چیچنیا اور عراق۔
اور جب ان سے کوئی اور کہے کہ مسلمانوں نے ظلم کیا تو کہتے ہیں ہاں یہ جنونی مذہبی لوگ ایسے ھی ھوتے ھیں۔ جب زیرِ بحث ھو عراق، چیچنیا، افغانستان، فلسطین و کشمیر۔
مسلمانوں کا تعلیم سے اس وقت تک بھلا نہیں ھوسکتا جب تک تعلیم کے حصول کے بعد انکے نوجوان مسلمانوں سے بیگانہ ھونا اور زبان درازی کرنا چھوڑ نہیں دیتے۔
وہ یہ بھول جاتے ھیں کہ حق ڈھونڈنا پڑتا ھے لیکن ناحق سینہ تانے گھومتا ھے۔
آپ کیوں ان لوگوں پر اپنا قیمتی وقت ضائع کررہے ھیں؟
جب چند دہائیوں میں مسلمان اچھوت بنا دئیے جائینگے اور ان روشن خیالوں کے سر پر ڈنڈا پڑیگا تو ھوش کے ساتھ عقل بھی ٹھکانے آجائیگی۔
At 4:42 am, Noumaan said…
امریکی اسکالر ڈیبوراہ لپسیڈ بھی بلاگ لکھتی ہیں آپ ان بلاگ یہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں:
http://lipstadt.blogspot.com/
At 8:24 am, افتخار اجمل بھوپال said…
Anonymous
آپ نے اپنے تجربات سے نوازا ۔ شکریہ ۔ بات یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ کو تعلیم کی نہیں صرف ڈگری کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس دن سب تعلیم کے خواہاں ہو جائیں گے حالات خود بخود ٹھیک ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ ہوشہد کی مکھی شہد بناتی ہے اور بچھو صرف ڈنک مارتا ہے ۔ دوسرے اپنی برائی چھوڑیں نہ چھوڑیں آپ اچھائی کرتے جائیے ۔
آپ نے کوئی غلط یا خطرناک بات نہیں لکھی پھر آپ گمنام کیوں رہنا چاہتے ہیں ؟ اگر آپ بلاگر نہیں ہیں اور آپ کی کوئی ویب سائٹ بھی نہیں تو آپ تحریر کے نیچے اپنا نام لکھ سکتے ہیں ۔ اس طرح آپ کی تحریر میں وزن پیدا ہوتا ہے
At 10:47 pm, MH said…
janab ajmal sahab,
aap ne likha ke bush ko human rights ka champion mana jata hai. aisa kahan hota hai? kam-az-kam jitni meri dunya ke halat se waqfiyat hai us ke lihaz se to dunya bhar mein us ki harkaton ka sab ko pata hai. siwae tony blair ke mera naheen khayal koi bhee bush ke jhoot ko manta hai. america mein bush ki approval rating din ba din gir ker ab 37% ke qareeb hai aur aaj kal us ki hukoomat ke iraqi jang se pehlay bolay gaey jhoot ki investigation chal rahi hai--aap ne suna ho ga valerie plame case ke baray mein.
mujhay zakarya se poora ittifaq hai. holocaust aik haqeeqat hai, aur jahan tak yahoodiyon ko bundle bana ker rakhne ki bat hai, us se bhee zyada buray halon mein un ko rakha gaya tha aur jangalon mein senkron logon ko aik sath le ja ker mar ker waheen mass graves mein dafna diya gaya tha. main sunti thee ke kuchh musalman holocaust ko sach naheen mantay laikin khud perhne ka ittifaq aaj hi hua hai. aap ki post perh lenay ke baad mujhay ye perh ker zyada hairat naheen hui ke aap partition ke waqt hinduon aur sikhon ke qatl-e-aam se bhee munkar hain. aap se bas aik iltija hai: khudara yahan comments likhne walon ki bat ka agar pur-wazan jawab de saktay hain to diya kijiyay, sirf unhain kal ka baccha, "roshan khayal," jaisay alqabat se nawaz ker aap kuch sabit naheen ker saktay. akhri bat ye ke musalmanon ke sath dunya bhar mein jo ho raha hai us se kisi ko inkar naheen--ooper comments ka maqsad mera khayal hai ye tha ke is ke khilaf awaz uthanay ke sath sath ham musalmanon ki harkaton per kyoon naheen kuch kehtay. ye koi pro-muslim vs. anti-muslim debate naheen hai--isey aisa mat banaiyye. shukriya.
At 2:23 am, Anonymous said…
"If stupidity got us into this mess, then why can't it get us out?"
At 5:55 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
محترمہ ایم ایچ صاحبہ
قطار توڑنے پر معذرت خواہ ہوں ۔ آپ کا تبصرہ طویل ہونے کے ساتھ رومن اردو میں لکھا تھا اس لئے پڑھنے میں وقت لگنے کا خدشہ تھا تو میں نے بیٹے زکریّا کے تبصرہ کا جواب پہلے لکھ دیا ۔ اس کے بعد بجلی مفارقت دے گئی ۔ میں نے چمپین والی بات حکومتوں کے حوالہ سے لکھی تھی عوام کے حوالہ سے نہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ امریکہ کے عوام کی اکثریت حکومتی پالیسی سے خوش نہيں ۔
ہالو کاسٹ حقیقت ہے مگر اس میں بہت مبالغہ سے کام لیا گیا ۔ اس سے مسلمانوں کا کیا تعلق تھا جو ان کے سینہ پر اسرائیل بٹھا دیا گیا ؟ میں ہندوؤں کے قتل سے منکر نہیں مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جو قتل عام شروع کرے اور لاکھوں کو قتل کرے اس کو اس کے برابر سمجھا جاۓ جن کے لاکھوں قتل ہونے کے بعد وہ چند سو کو قتل کر دیں ؟
آپ نے روشن خیال کا لفظ تو پکڑ لیا ہے مگر محسوس ہوتا ہے آپ نے میرے بلاگ کو بہت کم پڑھا ہے ۔ میں مسلمانوں کی حالت پر بھی لکھ چکا ہوں ۔ معاف کیجئے گا آپ بہت سی چیزیں آپس میں مخلّط کر رہی ہیں ۔ یہ کل کے بچے میں نے جہاں لکھا ہے از راہ کرم اس کا حوالہ دے دیجئے تاکہ میں سمجھ سکوں ایسا کیوں ہوا ۔ ایک بات کا خیال رہے کہ یہ میرا بلاگ ہے کوئی مباحثہ کا فورم نہیں ۔ اس لئے کچھ ثابت کرنے یا نہ کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ۔ انسان اپنی ڈائری میں صرف وہ کچھ لکھتا ہے جو اسے سمجھ آتا ہے اس میں اس کے اپنے خیالات ہو سکتے ہیں اور دوسروں کے بھی ۔
جہاں تک مسلمانوں کی حرکتوں پر لکھنے اور ان کی تربیّت کا تعلق ہے ذرا وقت نکالئے اور میرے دونوں بلاگز پر ساری پچھلی تحاریر پڑھیئے ۔ شائد آپ کو کچھ مطلب کی بات مل جاۓ ۔ میرے دوسرے بلاگ کا پتہ ہے ۔
http://iftikharajmal.blogspot.com/
At 7:10 pm, urdudaaN said…
جلد بازی میں تبصرہ لکھ کر آپ کی خدمت میں حاضر کرتے وقت مجھے یہ خیال نہیں رہا کہ میں بحیثیتِ گمنام تھا۔
Let me answer MH if I may:-
aap Amreeki log apna jamhoori sadr chun kar us ki harkaton keliye zimmedaar-naheen "naheen" raeh sakte.
aap ke paas 2 raaste hain:
1.kaeh deejiye keh amreeki awaam bush ko jamhoori sadr naheen maante kyun keh woh un ke khayaalaat ki tarjumaani naheen karta, lihaaza koi unke jamhoori huqooq ko bahaal kare,
2. ya phir us ki harkaton kee zimmedaari mein shirkat maan leejiye, jo aapke innocent civilian ke khol ko utaar dega.
aap to bas "best of both sides" ke maze looTte hain.
At 7:33 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
اردودان صاحب
گویا آپ میرے اپناۓ ہوۓ احتیاطی طریقہ کی وجہ سے گمنام ہوۓ ۔ ہا ہا ہا ۔
At 9:59 am, MH said…
muhtaram ajmal sahab: roman mein likhne ki maazrat. aap ka andaza durust hai: main ne waqai aap ka blog beech beech mein se he parha hai. holocaust aur israel ke taalluq ki had tak aap ki bat theek hai, laikin agar koi musalman sirf is waja se holocaust mein ki gaee zyadtiyon ki shiddat per shubah keray to ye na-insafi hai. aur jaisa ke aap bhee ooper likh chukay hain, ham sab aik jaisee sources per bharosa naheen kerte is liyay hamara tareekhee maslon per ikhtilaf kisi had tak nazaryati hai.
kal ke bacchay aur roshan khayal ki istilahat mein ne aap ki chand guzishta tahareer, un per kiye gaye tabsurat aur aap ke jawabat, aur deegar blogs per aap ke tabsurat ki roshni mein istamal ki theen kyoon ke mere andazay ke mutabiq aap (aur kuchh aur bloggers) meri yahan di gaee raey se kuchh isi qism ka khaka qayam kertay. baharhal main koshish keroon gi ke aap ki pichhli posts perh ker aap ke musalmanon ke baray mein khayalat samajh sakoon, laikin is mein thora waqt lagay ga.
urdudaan: aap ke tajweez-kerda do raston mein se pehla to na-qabl-e-qubool hai. doosra kisi had tak sahee hai, magar adhoora hai. mujhe bush ki harkaton ki partial zimmedari lenay mein koi aar naheen hai kyoonke us ki policies ki shadeed mukhalfat kerne ke bawujood mera ye manna hai ke wo jamhoori sadar hai aur us ne jo kiya apnee representative taqat ka istamal kerte hue kiya. aise mein main chahay kisi ko bhee vote doon, jab tak jamhooriyat ke fawaid sab ko hasil hotay hain tab tak elected sadar sab ka sadar hai. having said that, mera apne izhar-e-raye ke haq se dastbardar hone ka koi irada naheen. bush ko jamhoori sadar maannay aur ye kehnay mein ke wo mere khayalat ki tarjumani naheen kerta, in donon mein koi contradiction naheen hai. yehi jamhooriyat ki rooh hai. is tarha us ke kamon ki kucch zimmedari mujh per aaid hoti hai, laikin kitni? shayad ye kitab perh ker aap meri baat ka maqsad samajh sakain (http://www.amazon.com/gp/product/1592581633/103-6511427-2055844?v=glance&n=283155&n=507846&s=books&v=glance). itnay tafseeli jawab ki peshgi maazrat.
At 3:27 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
ایم ایچ صاحبہ
میں تین دہائیاں قبل مینجمنٹ اینڈ ہیومن سائیکالوجی پر تحقیق کر چکا ہوں ۔ کہنے والا بات کتنا ہی اچھے طریقہ سے کہے سننے والا اسے اپنے تخیّلات کے مطابق ہی پرکھے اور سمجھے گا ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کسی بات کو صحیح طرح سمجھنے کے لئے اپنے آپ پر وہی ماحول طاری کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اسے مؤدبانہ سلام کیا مگر وہ الٹا ناراض ہو گیا ۔
مبالغہ آمیزی کسی حقیقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کو کہتے ہیں ۔ میں اپنے علم کے مطابق چھ ملین تعداد کو مبالغہ کہتا ہوں ۔ آپ نہیں مانتی تو خوش رہیئے ۔ مجھے میرے علم اور تجربہ کے خلاف بات ماننے پر مجبور کرنے سے پہلے آپ ثابت تو کریں کہ آپ صحیح لکھ رہی ہیں ۔
مانا کہ میں اور آپ ایک ہی پس منظر اور تعلیم و تربیت نہیں رکھتے مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہمارا اختلاف نظریاتی ہے ۔ مضامین آپ نے اگر مغربی دنیا کے لکھے ہوۓ پڑھے ہیں تو میں نے بھی وہی پڑھے ہیں ۔ ایک فرق ہو سکتا ہے میں نے جرمنوں کے ساتھ 1964 سے 1976 تک دوستانہ ماحول میں کام کیا ہے اور کچھ عرصہ جرمنی میں بھی رہا ہوں ۔ میں نے وہ علاقے دیکھے جن پر اتحادیوں نے بمباری کر کے بالکل ملیامیٹ کر دیئے تھے اور وہ علاقہ بھی جہاں کہا جاتا ہے کہ ساٹھ لاکھ یہودیوں کو رکھا گیا تھا ۔ بزرگ جرمنوں سے جنگ کے واقعات بھی سنے ۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے والد صاحب سے بھی جنگ کے حالات سنے جو ان دنوں فلسطین میں تھے اور مصر جاتے رہتے تھے ۔ آپ کے پس منظر میں شائد یہ عنصر نہ ہوں ۔
میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ جہاں میں نے کل کے بچے لکھا تھا اس کا حوالہ دیجئے تاکہ صحیح بات پتہ چل سکے مگر آپ نے جنرل سا بیان لکھ دیا ہے ۔
At 12:07 am, Anonymous said…
ابو آپ کہتے ہیں کہ آپ نے نازی کیمپ دیکھے تھے۔ نازیوں کے کیمپ کئی قسم کے تھے۔ لیبر کیمپ میں لوگوں سے زبردستی کام کروایا جاتا تھا۔ concentration camps اس کے علاوہ تھے اور پھر خاص extermination camps بھی تھے جو تقریبا سب پولینڈ میں تھے۔ صرف سات extermination camps میں ساڑھے تین ملین لوگوں کو مارا گیا جن میں سے نوے فیصد یا زیادہ یہودی تھے۔ اس کے علاوہ باقی کیمپوں میں بھی بہت لوگوں کو مارا گیا۔
ہالوکاسٹ میں مؤرخین کے مطابق پانچ سے ساڑھے چھ ملین یہودی مارے گئے۔ اس کے علاوہ روما اور دوسرے کئی گروہوں کو بھی مارا گیا۔ اس سے انکار کیوں کیا جائے؟ یہ ایک بہت بڑی انسانی tragedy تھی۔
1947 میں کتنے ہندو یا سکھ مارے گئے یہ مجھے اپنی تاریخ کی کتابوں میں دیکھنا پڑے گا مگر ان کی تعداد چند سو سے زیادہ تھی اور بہت سے چودہ اگست سے پہلے مارے گئے۔ مثلا راولپنڈی کہوٹہ کے علاقے میں مارچ میں سکھوں کے خلاف فسادات۔
اردوداں صاحب: میں ایک تعلیمیافتہ مسلم نوجوان تو نہیں مگر تاریخ کی کچھ شدبد ضرور رکھتا ہوں۔ روشنخیالی کا دعوی بھی ہے۔ مگر آپ کی بات کچھ پلے نہیں پڑی۔
At 10:44 am, MH said…
is waqt zara jaldi hai is liye inshaAllah weekend tak apni holocaust mein maray gaye yahoodiyon ki tadad ke baray mein apni mukhtasir maloomat aur un ki sources yahan post kerne ki koshish keroon gi. aap se aik sawal kerna hai: Dawn akhbar main november 22 ko aik mudeer ke nam khat shaye hua, jo aap ki is post se hairat-angaiz tor per mumaslat rakhta tha. http://www.dawn.com/2005/11/22/letted.htm#12. khat ka unwaan tha "might is right," aur us ko likhne walay ka naam m.h.rohan hai. wo lahore se talluq rakhte/rakhtee hain. kya ye khat aap ne is naam se likha hai? aur agar naheen to phir us ka hawala na dene ki kya wujoohat theen?
At 1:27 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
بیٹے زکریا اور ایم ایچ صاحبہ
میں نے جرمنی میں وہ جگہ دیکھی تھی جسے کنسینٹریشن کیمپ کا نام دیا گیا اور جہاں چھ ملین یعنی ساٹھ لاکھ یہودی رکھنے کا دعوی کیا گیا ۔ جہاں تک ہندوستان کی آزادی سے پہلے اور بعد کے قتل عام کا تعلق ہے چلیں آپ غیرمسلموں کی تعداد ہزاروں میں کر لیں پھر بھی لاکھوں مسلمان جو قتل ہوۓ ان کا ذمہ دار کون تھا جبکہ یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے غیرمسلموں پر ہاتھ رد عمل کے طور پر اٹھایا ۔ مسلمانوں کے بہت زیادہ تعداد میں مارے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہ تھا کیونکہ مارچ 1947 میں ہندوستان کی آزادی کے فیصلہ کے بعد فوج اور پولیس میں ملازم مسلمانوں سے ہتھیار واپس لے لئے گئے تھے جبکہ ہندوؤں اور سکھوں سے نہیں لئے گئے تھے ۔ ہالوکاسٹ میں اگر ایک بلین یہودی بھی مارے گئے تو وہ عیسائیوں نے مارے تھے مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
آپ دونوں نجانے کس مشکل میں پڑ گئے ہیں اور اس میں سے نکل نہیں پا رہے ۔ میں نے لکھا تھا کہ ایک ڈیوڈ ارونگ ہے کہ کسی اور پر لگاۓ گئے جرم کے الزام کو ماننے سے انکار کرتا ہے تو اسے مجرم کہہ کر جیل میں ڈالا جا رہا ہے اور ایک امریکہ کا صدر ہے جس کے متعلق ساری دنیا جانتی ہے کہ اس نے خود سے ایک جھوٹ گھڑا پھر اسی جھوٹ کے سہارے بلا جواز عراق پر حملہ کیا اور مزید جرم پر جرم کرتا جا رہا ہے اور اسے ابھی بھی ہیومن رائٹس کا چمپین کہا جاتا ہے ۔
اس پر آپ لوگ بلاوجہ موضوع سے الگ ایک لمبی بحث میں پڑ گئے ہیں ۔ اس میں یہودیوں اور ہندوؤں کی مظلومیت اور مسلمانوں کا ظلم کہاں سے داخل ہو گیا ؟ اگر آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہودی اور ہندو مظلوم ہیں اور مسلمان ظالم تو آپ اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کریں کیونکہ نہ یہ درست ہے اور نہ میں یہ ماننے کے لئے تیار ہوں ۔ میں جو کچھ ہندوؤں کو اپنی آنکھوں سے صرف دس سال کی عمر میں دیکھ چکا ہوں اسے میں نظر کا دھوکا نہیں کہہ سکتا اور نہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میرے والد اور جرمن انجنیئروں نے یہوریوں کے متعلق جوکچھ مجھے بتایا وہ سب جھوٹ ہے ۔
میں تو زندگی کے اڑسٹھ سال گذار چکا ہوں ۔ اب تو ہر وقت اس دنیا سے کوچ کی تیاری ہے ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے انشاء اللہ دس پندرہ سال کے اندر آپ خود ہی دیکھ لیں گے کہ یہودی اور ہندو کتنے نیک ہیں اور مسلمان کتنے دہشت گرد ۔ ڈر صرف یہ ہے کہ ایسا نہ ہو ۔ اب پچھتاۓ کیا ہوۓ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
At 7:24 am, Anonymous said…
I have never denied the atrocities committed against Muslims in India/Pakistan or Palestine or elsewhere. In fact, I think that we need to help the people (in whatever way we can) who are being denied their rights (or being murdered in vast numbers). This should be irrespective of whether the wronged people are Muslims, Hindus, atheists, or Jewish. It means being on the side of right, rather than might or even rather than our own people. This is part of what you taught me. So why should we deny or even minimize the genocide against Jews committed by Nazis? Especially since we (for whatever definition of “we” other than all humans) did not commit this crime against humanity.
When we are for right, we cannot pick and choose which wrongs to condemn or highlight based on who’s our friend and who’s our enemy. All wrongs are wrongs. The bigger the wrong, the more we have to condemn it. And what bigger wrong than genocide, the planned murder of a whole people, whether they be Jews or Tutsis?
At 9:46 am, افتخار اجمل بھوپال said…
زکریا بیٹے
آپ نے بالکل ٹھیک لکھا ہے اور میں بھی یہی مسلک رکھتا ہوں ۔ ظلم ظلم ہی ہوتا ہے چاہے کسی پر ہو اور اس کی مذمّت اور مظلوم کی حمائت ہر مسلمان بلکہ انسان پر فرض ہے ۔ میں تو کسی چرند یا پرند پر ظلم برداشت نہیں کر سکتا تو انسان پر ظلم کیسے قبول کر سکتا ہوں اور آپ میری عادت سے اچھی طرح واقف بھی ہیں ۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ جو کچھ آپ ہیں وہ میری تربیّت کے بعد اپنی محنت سے بنے ہیں ۔ میری تحریر کو آپ بے انصافی کی خاطر نہیں میرے پس منظر کو مدّ نظر رکھ کر پڑھا کریں ۔ ہمارے خاندان کی تاریخ تو آپ کسی حد تک جانتے ہی ہیں پھر بھی اس کا مختصر اشارہ لکھ دیتا ہوں
پہلے سکھ راجاؤں نے ہمارے آباؤاجداد کی زمینیں چھین لیں پھر انگریزوں نے ہمارے آبا و اجداد کی زمینوں پر قبضہ کیا اور اس آپریشن میں میرے پردادہ کے چار جوان بھائیوں کو ہلاک کر دیا ۔ ہندوؤں نے میرے دادا کے بھائی ۔ جوان بھتیجے اور ہمارے نوّے فیصد محلّہ داروں کو صرف اس لئے مارڈالا کہ وہ مسلمان تھے اور سب کی املاک لوٹ لی ۔ فلسطین میں یہودیوں کو عربوں کا ناحق خون بہاتے ہوۓ میرے والد نے خود دیکھا ۔ نومبر 1947 میں میرے والدین اپنا کاروبار میرے ماموں کے حوالے کر کے ایک سات ماہ کے بچّے کو ساتھ لئے یہودیوں سے چھپتے چھپاتے فلسطین سے نکلے ۔ بعد میں یہودیوں نے میرے والد کی ساری املاک پر قبضہ کر لیا ۔ ماموں کو کسی نے حملہ سے پہلے بتا دیا اور وہ رات کے وقت وہاں سے بغیر کچھ ساتھ لئے اپنی جان بچا کر مصر چلے گئے ۔
At 4:07 pm, Anonymous said…
What do you have to say about this?
http://www.alphalink.com.au/~agilbert/part.html
At 8:18 am, افتخار اجمل بھوپال said…
Mr or Ms Esther
Since 19th instant, I am very busy. Apart from other things, my son and daughter-in-law are here after 3 years for 2 weeks only, and with my 16 month old first grand child. Still I stole time to read the nice biography.
Would you like to give me your link. I would like to gain more knowledge about those days.
Post a Comment
<< Home