جموں کشمیر کے جوانوں نے ہتھیار کیوں اٹھائے ۔JK 18
۔
ایک طرف بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور دوسری طرف سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی ۔ بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت کے پردھان منتری راجیو گاندھی سے دوستی شروع کی اور جہاں کہیں لکھا تھا کشمیر بنے گا پاکستان وہ مٹوا دیا یہاں تک کہ راولپنڈی میں کشمیر ہاؤس کے سامنے سے وہ بورڈ بھی اتار لیا گیا جس پر کشمیر ہاؤس لکھا تھا اور اس سے بھی بڑھ کر خیر سگالی کرتے ہوئے اں راستوں کی نشان دہی بھارت کو کر دی جن سے جموں کشمیر کے لوگ سرحد کے آر پار جاتے تھے ۔ مقبوضہ علاقہ کے ظلم کی چکی میں پسے ہوئے لوگوں کے لئے رضاکار آزاد جموں کشمیر سے کپڑے ۔ جوتے ۔ کمبل وغیرہ لے کر انہی راستوں سے جاتے تھے ۔ بھارتی فوج نے ان راستوں کی کڑی نگرانی شروع کر دی ۔ کئی سو کشمیری مارے گئے اور بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند ہو گئی ۔
۔
بوڑھے جوانوں کو ٹھنڈا رکھتے تھے ۔ جب بوڑھوں کے پاس جوانوں کو دلاسہ دینے کے لئے کچھ نہ رہا تو جوانوں نے اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کی ٹھانی ۔ ابتداء یوں ہوئی کہ بھارتی فوجیوں نے ایک گاؤں کو محاصرہ میں لے کر مردوں پر تشدّد کیا اور کچھ خواتین کی آبروریزی کی ۔ یہ سب کچھ پہلے بھی ہوتا رہا تھا مگر اس دفعہ ایک تو جوان بدلہ لینے کا فیصلہ کر چکے تھے اور دوسرے بھارتی فوجی اتنے دلیر ہو چکے تھے کہ انہوں نے خواتین کی بےحرمتی ان کےگاؤں والوں کے سامنے کی ۔ اس گاؤں کے جوانوں نے اگلے ہی روز بھارتی فوج کی ایک کانوائے پر اچانک حملہ کیا ۔ بھارتی فوجی کسی حملے کی توقع نہیں رکھتے تھے اس لئے مسلمان نوجوانوں کا یہ حملہ کامیاب رہا اور کافی اسلحہ ان کے ہاتھ آیا ۔ پھر دوسرے دیہات میں بھی جوابی کاروائیاں شروع ہو گئیں اور ہوتے ہوتے آزادی کی یہ مسلحہ تحریک پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں پھیل گئی ۔
۔
اس تحریک آزادی اور تحریک آزادی 1947 میں فرق
۔
اس کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی جبکہ 1947 والی تحریک کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی ۔
۔
۔
۔
۔
ایک لاکھ کے قریب مکانات جلا دیئے گئے
۔
۔
۔
۔
پاکستان کی موجودہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں بھارتی فوج کا ظلم و ستم بہت کامیاب جا رہا ہے ۔ وہ روزانہ دس بارہ جوانوں کو مار دیتے ہیں اور مکانوں کو آگ لگا کر درجنوں بےگناہ مسلمانوں کو بے گھر کر دیتے ہیں ۔ اور مسلمان خواتین کی بے حرمتی بھی جاری ہے ۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اپنے آپ کو مسلمان اور انسانیت کا علمبردار کہنے والے ۔ جموں کشمیر کے ان ستم رسیدہ لوگوں کو دہشت گرد کہتے ہیں ۔ ان نام نہاد روشن خیال اور امن پسند لوگوں سے کوئی پوچھے کہ اگر ان کے بھائی یا جوان بیٹے کو اذیّتیں دے کر مار دیا جائے اور کچھ دن یا کچھ ہفتوں کے بعد اس کی مسخ شدہ لاش ملے ۔ اگر ان کی ماں ۔ بہن ۔ بیوی ۔ بیٹی یا بہو کی آبروریزی کی جائے ۔ اگر ان کا گھر ۔ کاروبار یا کھیت جلا د ئیے جائیں ۔ تو وہ کتنے زیادہ روشن خیال اور کتنے زیادہ امن پسند ہو جائیں گے ؟
2 Comments:
At 11:05 pm, Anonymous said…
اب آپ کا ےہ بلاگ جاذب نظر لگ رہا ہے، دوسرے والے بلاگ کی ٹملیٹ بھی تبدیل کرلیں اچھا لگے گا ۔
At 3:50 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
شعیب صاحب
میں نے اپنے دوسرے بلاگ میں معمولی تبدیلی کی ہے دیکھئے کچھ بہتر ہوا ؟
Post a Comment
<< Home