. . . . . Hypocrisy Thy Name is . . . . . منافقت . . . . .

آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی..اللہ کے بندوں کو آتی نہیں روباہی...Humanity is declining by the day because an invisible termite, Hypocrisy منافقت eats away human values instilled in human brain by the Creator. I dedicate my blog to reveal ugly faces of this monster and will try to find ways to guard against it. My blog will be objective and impersonal. Commentors are requested to keep sanctity of my promise.

Wednesday, September 07, 2005

پردہ کچھ سرکا ہے حقائق سے

ترتیب کے مطابق آج مجھے جموں کشمیر کی سلسلہ وار قسط پوسٹ کرنا تھی جو کہ بہت اہم بھی ہے لیکن حال کا اہم واقعہ ماضی پر سبقت لے جاتا ہے ۔ اس لئے قارئین سے معذرت ۔

سونیا ناز کا خاوند عاصم محکمہ ایکسائیز کی ٹوکن برانچ میں ملازم تھا ۔ محکمہ کی رجسٹریشن برانچ میں گھپلا ہوا جس سے عاصم کا کوئی تعلق نہ تھا مگر پولیس نے اکتوبر 2004 میں عاصم کو گرفتار کر لیا ۔ قانون کے مطابق کاروائی کرنے کی بجائے عاصم کے خاندان کو تنگ کیا گیا اور عاصم کی رہائی کی قیمت مانگی گئی ۔ اس سارے ڈرامے کا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر سپرنٹنڈنٹ پولیس خالد عبداللہ وڑائچ تھا ۔ عاصم کے خاندان سے چودہ لاکھ روپیہ وصول کر لینے کے بعد بھی خالد عبداللہ وڑائچ کی تسلی نہ ہوئی اور مزید رقم کے لئے عاصم کے خاندان کو جس میں عاصم کے 68 سالہ والد ملک یوسف 23 سالہ بیوی سونیا ناز دو جوان بہنیں اور دو چھوٹے چھوٹے بچے شامل ہیں بہت پریشان کرتا رہا ۔

جب ڈی آئی جی فیصل آباد اور پنجاب کے آئی جی کو درخواستیں بھیجنے کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور ظلم میں کمی کی کوئی صورت نہ بنی تو سونیا ناز انصاف کی تلاش میں لاہور میں نیب کے دفتر میں گئی اور اپنی بپتا نیب کے صوبائی چیف بریگیڈیئر امان اللہ کو سنائی جس نے بجائے انصاف کرنے کے سونیا ناز کی بے عزتی کی اور دفتر سے نکل جانے کا حکم دیا ۔
اس کے بعد اپریل 2005 میں سونیا ناز وزیراعظم سے التجا کرنے اسلام آباد آئی ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا ۔ وہ اتفاق سے اسمبلی ہال کے اندر پہنچ گئی اور قومی اسمبلی میں عورتوں کی بہبود و ترقی کی سٹینڈنگ کمیٹی کی چیرپرسن مہناز رفیع سے مدد چاہی ۔ مہناز رفیع نے سونیا کی یہ بہبود و ترقی کی کہ اسے پولیس کے حوالے کر دیا ۔
کچھ دن سونیا ناز کو اڈیالہ جیل راولپنڈی میں رکھنے کے بعد اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا تو اس نے ایک خدا ترس وکیل کے ذریعہ لاہور ہائی کورٹ میں اپنے خاوند عاصم کی برآمدگی کے لئے پیٹیشن داخل کی ۔ 27 اپریل 2005 کو عدالت نے فیصل آباد پولیس کو حکم دیا کہ عاصم کو 6 مئی کو عدالت میں پیش کیا جائے ۔ مقررہ تاریخ پر عاصم کو پیش نہ کیا گیا اور سونیا ناز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ میری مؤکلہ یعنی سونیا ناز دو ہفتے سے غائب ہے ۔ دراصل پولیس نے سونیا ناز کو اغوا کر کے ایس پی خالد عبداللہ وڑائچ کے پاس پہنچا دیا تھا ۔

سپرنٹنڈنٹ پولیس خالد عبداللہ وڑائچ سونیا ناز کو پارلیمنٹ تک بات پہنچانے کا سبق سکھانا چاہتا تھا ۔ خالد عبداللہ وڑائچ نے سونیا پر تشدد کیا اور اس کے کپڑے بھی پھاڑ دیئے ۔ اس نے سونیا کی عزت لوٹنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا ۔ پھر اس نے تھانیدار انسپکٹر جمشید اقبال چشتی کو بلا کر اسے حکم دیا اور اس نے سونیا کو قابو کر کے اس کی عزت تار تار کر دی ۔

جب سونیا ناز کو پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتار کیا گیا تھا تو اس کے سسر ملک یوسف نے مہناز رفیع کو خط لکھا تھا جس میں اپنی بہو سونیا ناز اور اپنے خاندان پر ہونے والے مظالم کی تفصیل لکھی تھی جس میں نیب کے دفتر میں بریگیڈیئر امان اللہ کے رویّہ کا ذکر بھی تھا ۔ اس پر مہناز رفیع نے پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس کو انکوائری کے لئے خط لکھا ۔ کچھ نہ ہونے پر مہناز رفیع نے پنجاب کے وزیراعلی کو انکوائری کے لئے خط لکھا ۔ پھر بھی کچھ نہ ہوا ۔ مہناز رفیع نے بھی صرف خط لکھ دینا ہی کافی سمجھا ۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں پارلیمنٹیرین کی کوئی وقعت نہیں ہے ۔

جب سے سونیا ناز کو پارلیمنٹ ہاؤس سے پولیس کے حوالہ کیا گیا تھا خالد عبداللہ وڑائچ کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے ڈر سے اور اپنی دو جوان بیٹیوں کی عزت بچانے کی خاطر عاصم کے والد اپنے گھر کو تالا لگا کر در در کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں ۔

خالد عبداللہ وڑائچ کی چند خوبیاں

خالد عبداللہ وڑائچ کو کرپشن کی بنا پر 1998 میں پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف نےمعطل کر دیا تھا اور اس کے خلاف اعلی سطح کی انکوائری کا حکم دیا تھا ۔ اس وقت خالد عبداللہ وڑائچ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ۔ متذکرہ انکوائری نمعلوم وجوہات کی وجہ سے 1999 میں پرویز مشرف کی حکومت آنے تک مکمل نہ ہو سکی بعد میں خالد عبداللہ وڑائچ نہ صرف بحال ہو گیا بلکہ ترقی پا کر سپرنٹنڈنٹ پولیس بن گیا ۔

خالد عبداللہ وڑائچ کے گجرات کے با اثر چوہدریوں سے گہرے تعلقات ہیں اور ننکانہ صاحب سے منتخب ہونے والا رکن پنجاب اسمبلی شاہد منظور گل اسکا داماد ہے ۔

خالد عبداللہ وڑائچ نے اپنی بیوی اور بچوں کے نام فاروق آباد شیخوپورہ روڈ کے کنارے 200 ایکڑ یعنی 1600 کنال زمین خریدی جس پر 20 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک ماڈرن فارم ہاؤس بنایا ۔ اس فارم ہاؤس پر 320 بھینسیں ہیں اور درجنوں مکان بنے ہوئے ہیں ۔ ماضی میں جو چوری شدہ مویشی پولیس برآمد کرتی تھی وہ اس فارم پر پہنچا دیئے جاتے تھے ۔

اس کیس میں ایک ڈی آئی جی جیل خانہ جات ناصر محمود وڑائچ بھی ملوث ہے جو خالد عبداللہ وڑائچ کا قریبی رشتہ دار ہے ۔

جوڈیشئل کمیشن صرف ایک آدمی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فیصل آباد عبدالحمید خان پر مشتمل ہے ۔ سنا گیا ہے کہ عبدالحمید خان سونیا ناز کی عزت لوٹنے والے انسپکٹر جمشید اقبال چشتی کا رشتہ دار ہے ۔

مزید معلومات حکومت کی خفیہ ایجنسیاں حاصل کر سکتی ہیں کوئی ٹریبونل یا انکوائری کمشن نہیں ۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ کیس بھی وقت کے ساتھ دفن ہو جائے گا جس طرح پہلے کئی ہو چکے ہیں اور خالد عبداللہ وڑائچ ترقی پا کرڈی آئی جی یا ریٹائرمنٹ لے کر وزیر بن جائے گا ۔

کیا ہمارے ملک میں قانون یا انصاف نام کی کوئی چیز ہے ؟ جب تک عوام آپا دھاپی چھوڑ کر اجتماعی بہتری کے لئے بے لوث جدوجہد نہیں کریں گے اس وقت تک ہر ماں بہن بیوی بیٹی بہو کی عزت خطرے میں رہے گی ۔

5 Comments:

  • At 7:58 am, Anonymous Anonymous said…

    This comment has been removed by a blog administrator.

     
  • At 8:24 am, Blogger Shaper said…

    Unlce Ajmal! when ever i read news like that i feel so bad for myself because i cann't do any thing. Some time i think I should do some thing practically. but i guess i don't have much power and confidence same as other pakistanis but atleast i should try. I m not blaming to any one..

     
  • At 12:15 pm, Blogger افتخار اجمل بھوپال said…

    Mr Shabbir
    Presently, we should, at least, politely express our feeling against bad things on the internet, in e-mails and among company of relatrives or friends.

    Rasool allah SAS said, "Stop the evil by force. If you can not stop it, speak loudly against it. If you can not even speak loudly then hate it within your heart and mind. The last attitude is sign of the weakest faith."

     
  • At 5:04 pm, Blogger Shaper said…

    I'm SHAPER! True that we are expressing our feelings. But the writers and journalists they did write the truth since pakistan get in the world map. but the country system still the same. I know we need todo more.

     
  • At 7:15 pm, Blogger افتخار اجمل بھوپال said…

    Mr Shaper

    What I wrote is the minimum. If you can do more it is better.

     

Post a Comment

<< Home