صیہونیوں کا توسیعی پروگرام پر عملدرآمد
اور 30 نومبر کو اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کے اسباب لکھے تھے اور 8 دسمبر کو کچھ تاریخی نقشے پوسٹ کئے تھے ۔
اسرائیل نے 1955 میں غزہ اور اردن کی شہری آبادیوں پر چھاپہ مار حملے شروع کر دیئے ۔ جس سے فلسطینی مسلمان تو مرتے رہے مگراسرائیل کو کوئی خاص فائدہ نہ ہوا ۔ 1956 میں برطانیہ ۔ فرانس اور اسرائیل نے مصر پر بھرپور حملہ کر دیا جس میں مصر کے ہوائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان مشترکہ فوجوں نے سینائی ۔ غزہ اور مصر کی شمالی بندرگاہ پورٹ سعید پر قبضہ کر کے نہر سویز کا کنٹرول سنبھال لیا جو حملے کی بنیادی وجہ تھی ۔ روس کی دھمکی پر اقوام متحدہ بیچ میں آ گئی اور جنگ بندی کے بعد سارا علاقہ خالی کرنا پڑا ۔ اس حملہ کے لئے امریکی حمائت حاصل نہ تھی ۔
اسرائیل نے امریکہ اور دوسرے پالنہاروں کی پشت پناہی سے 5 جون 1967 کو مصر ۔ اردن اور شام پر حملہ کر دیا اور غزہ ۔صحرائے سینائی ۔ مشرقی بیت المقدّس ۔گولان کی پہاڑیوں اور دریائے اردن کے مغربی علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اس جنگ میں امریکہ کی مدد سے مصر ۔ اردن اور شام کے راڈار جیم (jam) کر دیئے گئے اور اسرائیلی ہوائی جہازوں نے مصر کے ہوائی جہازوں کو زمین پر ہی تباہ کر دیا ۔ اقوام متحدہ نے ایک قرار داد 242 کے ذریعہ اسرائیل کو تمام مفتوحہ علاقہ خالی کرنے کو کہا جس پر آج تک عمل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد اقوام متحدہ کے مطابق مزید پانچ لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ملک فلسطین سے مصر ۔ شام ۔ لبنان اور اردن کی طرف دھکیل دیا گیا ۔ اس لڑائی کے بعد کی صورت حال اس نقشہ میں دکھائی گئی ہے
جب مذاکراتی اور سیاسی ذرائع سے اسرائیل پر کوئی اثر نہ ہوا تو مصر اور شام نے 1973 میں رمضان کے مہینہ میں اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ مصری فوج نہر سویز کے کنارے اسرائیل کی بنائی ہوئی بیس میٹر اونچی ریت کی دیوار میں شگاف ڈال کر سینائی میں داخل ہو گئی اور وہاں پر موجود اسرائیلی فوج کا صفایا کر دیا ۔ مصر نے اسرائیلی ایئر فورس کے دو سو کے قریب ہوائی جہاز سام مزائیلوں سے مار گرائے ۔ اسرائیل کے گھر گھر میں رونا پڑ چکا تھا ۔ ان کے چھ ہزار فوجی اور دوسو پائلٹ ہلاک ہو چکے تھے اور مصری فوج صحرائے سینائی عبور کر کے اسرائیل کی سرحد کے قریب پہنچ گئی تھی ۔ اگر امریکہ پس پردہ اسرائیل کی بھر پور امداد نہ کرتا تو فلسطین کامسئلہ حل ہو چکا تھا ۔ امریکہ بظاہر جنگ میں حصہ نہیں لے رہا تھا مگر اس کا طیارہ بردار بحری جہاز سینائی کے شمالی سمندر میں ہر طرح سے لیس موجود تھا اس کے راڈاروں اور ہوائی جہازوں نے اسرائیل کے دفاع کے علاوہ مصر میں پورٹ سعید کے پاس ہزاروں اسرائیلی کمانڈو اتارنے میں بھی رہنمائی اور مدد کی ۔ اسرائیلی کمانڈوز نے پورٹ سعید کا محاصرہ کر لیا جو کئی دن جاری رہا ۔ وہاں مصری فوج موجود نہ تھی کیونکہ اسے جغرافیائی لحاظ سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ اپنے دور حکومت میں جمال عبدالناصر نے ہر جوان کے لئے 3 سال کی ملٹری ٹریننگ لازمی کی تھی جو اس وقت کام آئی ۔ پورٹ سعید کے شہریوں نے اسرائیلی کمانڈوز کا بے جگری سے مقابلہ کیا اور انہیں شہر میں داخل نہ ہونے دیا ۔ سعودی عرب کے بادشاہ فیصل نے تیل کا ہتھار موثّر طور پر استعمال کیا ۔ پھر امریکہ ۔ روس اور اقوام متحدہ نے زور ڈال کر جنگ بندی کرا دی ۔
دہشتگرد حکمران
چیف آف سٹاف اسرائیل آرمڈ فورسز تو 1953 عیسوی میں ہی ایک بدنام زمانہ دہشت گرد موشے دیان بن گیا تھا مگر صیہونی دہشت گرد تنظیمیں (ارگون ۔ لیہی ۔ ہیروت ۔ لیکوڈ وغیرہ) اسرائیل میں 1977 تک حکومت میں نہ آسکیں اس کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد ہوتا رہا ۔ 1977 میں ارگون کے لیڈر مناخم بیگن نے وزیراعظم بنتے ہی غزہ اور باقی علاقے میں جن پر 1967 میں قبضہ کیا گیا تھا تیزی سے یہودی بستیاں بسانی شروع کر دیں تا کہ زمینی حقائق کو بدل دیا جائے اور کوئی ان سے علاقہ خالی نہ کرا سکے ۔
اسرائیل نے 1982 میں لبنان پر بہت بڑا حملہ کر کے اس کے بہت سے علاقہ پر قبضہ کر لیا ۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی مہاجرین کے دو کیمپوں صابرا اور شتیلا کو گھیرے میں لے کر اپنے مسلحہ حواریوں فلینجسٹس(Flangists) کی مدد سے وہاں مقیم چار ہزار نہتے فلسطینی مہاجرین کو قتل کروا دیا جن میں عورتیں بچے اور بوڑھے شامل تھے ۔ یہ کاروائی ایرئل شیرون کے حکم پر کی گئی تھی جو ان دنوں اسرائیل کا وزیر دفاع تھا ۔
عرب یہودی جو فلسطین کے باشندے ہیں ان کو فلسطین میں وہ مقام حاصل نہیں ہے جو باہر سے آئے ہوئے صیہونی یہودیوں کو حاصل ہے ۔ اس کا ایک ثبوت یہودی صحافی شمیر ہے جو اسرائیل ہی میں رہتا ہے ۔ دیگر جس لڑکی لیلی خالد نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو اجاگر کرنے کے لئے دنیا میں سب سے پہلا ہوائی جہاز ہائی جیک کیا وہ عیسائی تھی ۔ فلسطین کو یہودیوں سے آزاد کرانے کے لئے لڑنے والے گوریلوں کے تین لیڈر جارج حبش ۔ وادی حدّاد اور جارج حواتمے عیسائی تھے ۔ اتفاق دیکھئے کہ حنّان اشراوی ۔ حنّا سینی اورا اور عفیف صفیہ جنہوں نے اوسلو معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا وہ بھی عیسائی ہی ہیں ۔
۔
موجودہ صورت حال اس نقشہ میں دکھائی گئی ہے ۔ اس نقشہ میں غلطی سے Israeli constructed roads لکھا گیا ہے یہ دراصل Israeli controlled roads ہے یعنی یہ سڑکیں اسرائیل کے زیر انتظام ہیں ۔ گویا فلسطینی اپنے علاقہ میں بھی اسرائیل کے سکنجے میں ہیں ۔
ان حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون دہشت گرد ہے ۔ فلسطینی مسلمان یا اسرائیلی صیہونی ؟
2 Comments:
At 4:09 pm, REHAN said…
ٓپ ایک اچھے بلاگ رایٹر ہیں ۔۔۔۔ گر کسی کی کمنٹ کا انٹتظار ہوا مجھے تو وہ ٓپ ہیں پر افسوس مجھے ہر کوءی صاحب جان کر کمنٹ دینا پسند ہی نہیں کرتا ۔۔۔۔۔ جانے کیوں سب مجھے صاحب بلاتے ہیں ۔۔۔۔ کیا میری شکل صاحبوں جیسی ہے ۔۔۔ ؟؟؟؟؟
At 4:47 pm, افتخار اجمل بھوپال said…
جناب ریحان علی مرزا صاحب
آپ میرے لئے محترم ہيں بلکہ میرے لئے سب ہی محترم ہيں ۔
آپ اسماء کریم مرزا صاحبہ کے قریبی تو نہیں ؟ وہ بھی بڑی جلدی ناراض ہو جاتی ہیں مگر ٹھیک بھی ہو جاتی ہیں ۔
Post a Comment
<< Home